Donnerstag, 14. Juli 2011

سفرِ حج

سفرِ حج
سال۲۰۰۳ء

دسمبر ۱۹۹۶ء میں عمرہ کی سعادت حاصل کرنے کے بعد سے دل میں یہ خواہش تھی کہ ارضِ حجاز میں پھر سے حاضری دی جائے۔مسئلہ یہ تھا کہ ایک بار عمرہ سے ہو آنے کے بعد دوبارہ عمرہ کے لئے جانے سے پہلے حج کرنا ضروری تھا۔حج کے بعد پھر جتنی بار چاہیں عمرہ کے لئے جا سکتے ہیں۔۲۰۰۳ء میں حج کے لئے جانے کا ارادہ کر لیا تھا۔اس کے لئے عمرہ جتنی رقم بھی بچا لی تھی۔لیکن جب جانے کا وقت قریب آیا اور حج کے جملہ اخراجات کی تفصیل معلوم کی تو پتہ چلا کہ جتنی رقم کے ساتھ ہم عمرہ کر آئے ہیں اس سے دوگنی رقم بھی حج کے لئے کم ہے۔اپنی مالی حیثیت دیکھتے ہوئے چُپ کر کے بیٹھ گئے۔

۔۔۔۔۔اسی دوران پہلے بڑے بیٹے اور بہو( شعیب اور تسنیم) نے اپنی طرف سے ایک پیش کش کی۔پھر دوسرے بیٹے اور بہو(عثمان اورنادیہ )نے ساتھ دیا۔دونوں بھائیوں کو دیکھتے ہوئے طارق نے بھی ہمت کی اور اپنی پاکٹ منی سے ہی اچھی خاصی رقم نکال دی۔تینوں بیٹوں کی طرف سے حج کرانے کی پیش کش سامنے آئی تو فرانس میں مقیم میرے سب سے چھوٹے بھائی اعجاز کو بھی جوش آگیا۔چنانچہ اس نے بھی اس کارِ خیر میں خاطر خواہ حصہ ڈال لیا۔اعجاز کی وجہ سے ۱۹۹۵ء میں ہم نے اپنا عمرہ موخر کر دیا تھا اور اب حج پر جانے کی توفیق ملنے لگی تھی تو اس میں اعجاز کا بھی خاطر خواہ حصہ شامل تھا۔اﷲ تعالیٰ تینوں بیٹوں،دونوں بہوؤں اور بھائی کو جزائے خیر دے ۔آمین
۔۔۔ ۔۔۔رقم کا مسئلہ بڑی حد تک حل ہو گیا تو آخری مرحلہ میں فرینکفرٹ میں سعودی عرب کے منظور شدہ ادارہ’’فہد عمرہ سروس’’سے رابطہ کیا۔انہوں نے کاغذی کاروائی مکمل کر لی تو پاسپورٹ ان کے حوالے کرکے آگئے۔یکم فروری کو ان کی طرف سے ٹیلیفون آیا کہ ویزہ اور ٹکٹ لے جائیں۔ہمیں بتایا گیا کہ فہد عمرہ سروس کا ایک بندہ ہمیں وہاں سے لے لے گا۔ ہمیں فہد سروس والوں کا سعودی عرب کاٹیلی فون نمبر بھی دیا گیا کہ کسی مسئلہ کی صورت میں ان سے رابطہ کریں۔وہ تاریخی نمبریہ ہے:055311846
  ۔ ۲؍فروری اتوار کے روز ساڑھے نو بجے کی حج فلائیٹ سے روانہ ہوئے۔   
۳؍فروری کو علی الصبح سعودی عرب کے وقت کے مطابق ۵ بجے جدہ پہنچے۔جدہ ائر پورٹ پر بد انتظامی کی انتہا تھی۔بے شک حج کے ایام میں رش بہت زیادہ ہوجانے کی وجہ سے بہت سے مسائل پیدا ہوتے ہیں اور کہیں نہ کہیں کوئی انتظامی کوتاہی رہ جاتی ہے۔لیکن یہاں تو دیدہ دانستہ بد انتظامی کے مناظر تھے۔ میں اس سفر کی روداد کے آخر میں سعودی انتظامیہ کے لئے ایک دومشورے لکھوں گا۔اگر ان پر غور کرکے عملدرآمد کی کوئی صورت نکل آئے تو اچھی بات ہو گی۔
۔۔۔۔۔۔۔ جدہ ائرپورٹ سے باہر نکلنے تک افراتفری،بد نظمی کے کئی مرحلوں سے گزرے۔باہر آئے تو ہمارا سامان ایک بڑے ٹرالے پر لاد کر کسی انجان سمت لے جایا جانے لگا۔پھر ایک ٹرمینل پر لے جا کرسارا سامان ڈھیر کر دیا گیا۔در اصل حج کے سلسلہ میں سعودی حکومت نے گروپ کی صورت میں آنے والوں کو ترجیح دے رکھی ہے جو حکومت کے لئے خاصا منفعت بخش کاروبار بن چکا ہے۔ انفرادی اور ذاتی طور پر آنے والوں کی حوصلہ شکنی کا بطور خاص انتظام کر رکھا ہے تاکہ لوگ صرف حج گروپس کی صورت میں آئیں اور سعودی حکومت کے خزانے میں اضافہ کا موجب بنیں۔آگے چل کر پوری طرح اس بات کی تصدیق ہوتی گئی کہ ایک دینی فریضہ کی ادائیگی کو ’’خادم الحرمین الشریفین‘‘کی قائم کردہ وزارت حج کی جانب سے باقاعدہ کمرشیلائز کر دیا گیا ہے۔
۔۔ میں نے ’’فہد عمرہ سروس‘‘کے بندے سے مذکورہ بالا فون نمبر پربات کی وہاں سے ایک اور نمبر دے دیا گیا۔ اس نمبر پر رابطہ کیا تو کہا گیا کہ میں دو گھنٹے میں پہنچتا ہوں۔پھر کئی گھنٹے گزر گئے۔پریشان ہو کر میں نے ایک پاکستانی کو ڈھونڈا۔ان کی مدد سے وزارت حج کے ایک افسر کے دفتر میں گئے۔موصوف بڑی شائستگی سے پیش آئے۔ان کو فہد سروس کا فون نمبر دیا تو انہوں نے اپنے موبائل فون سے ان سے رابطہ کیا اور انہیں فوراََ اپنے دفتر میں طلب کیا۔پھر ہمیں بتایا کہ وہ بس آنے والا ہے اور ہمیں لے کر دفتر سے باہر آگئے۔ایک جگہ ہمیں رکنے کے لئے کہا اور پھر خود بھی غائب ہو گئے۔جس پاکستانی دوست کے ذریعے وزارت حج کے اس’’ عظیم افسر ‘‘سے رابطہ کیا ان کا نام رضاء اﷲ خالدی تھا۔
۔۔۔۔۔وہاں سے واپس اس ٹرمینل تک آئے جہاں ہمارا سب کا سامان ڈھیر تھا،تودیکھا کہ مبارکہ اکیلی کھڑی رو رہی ہے ۔سارا سامان غائب ہے۔پتہ چلا کہ وہ ٹرمینل کے ساتھ منسلک باتھ روم تک گئی ہے اور تین منٹ کے اندر سارا سامان غائب ہو گیا ہے۔وہاں گروپ حج والے بھی موجود تھے۔وہ جانے لگے تو ان کے سامان کے ساتھ ہمارا سامان بھی چلا گیا۔یہ گروپ والوں میں سے کسی کی بد نیتی تھی یا سعودی انتظامیہ کی بد انتظامی تھی،خدا ہی بہتر جانتا ہے۔
۔۔۔۔ ۔دو بھرے ہوئے اٹیچی کیس اور ایک بڑا بیگ، لے جانے والے سب کچھ ہی لے گئے۔اب فہد عمرہ سروس والوں کی سروس کا کیا کرتے ،سامان کی فکر دامنگیرہوئی۔تشویش والی سب سے اہم بات یہ تھی کہ بلڈ پریشر اور شوگر چیک کرنے والے ہمارے سارے آلات بھی اس سامان میں تھے اور ہماری بیماریوں کی دوائیں بھی اس سامان میں تھیں۔میرا مسئلہ شوگر کی ایک گولی تک تھا لیکن مبارکہ کو بیک وقت سات آٹھ گولیاں دن میں دو تین بار لینا ہوتی ہیں۔اور ہر گولی بہت ضروری ہوتی ہے۔سارا سامان غائب ہونے کے باوجود یہ بھی خدا کا شکر ہے کہ مبارکہ کا پرس اس کے کندھوں پر تھا۔پرس میں ہماری ساری سفری دستاویزات اور ایک معقول رقم موجود تھی۔اسی لئے مجھے سامان کی اتنی فکر نہیں تھی البتہ دواؤں کے سلسلے میں پریشانی ضرور تھی کہ کیا بنے گا۔
۔۔۔۔۔ رضا اﷲ خالدی صاحب اس وقت اپنی ڈیوٹی پر تھے پھر بھی انہوں نے ’’حج سروس آفس ‘‘تک میری رہنمائی کی۔وہاں پہلے تو ایک سے بڑھ کر ایک ’’بدو‘‘ سے واسطہ پڑا،جو عربی کے علاوہ کسی زبان میں بات نہیں کر سکتے ۔لیکن آخر ڈاکٹر غازی غورب تک پہنچے تو قدرے تسلی ہوئی کہ جس سے بات کی جا رہی ہے وہ بات کو سن رہا ہے،سمجھ رہا ہے اور اپنی بساط کے مطابق کچھ کر بھی سکتا ہے۔انہوں نے ہمارے تینوں اٹیچی کیس اور بیگ کی تفصیل مخصوص فارم پر لکھ لی اور اپنا فون نمبربھی ہمیں دے دیا۔(02-68 58 328 )
۔صبح پانچ بجے جدہ ائر پورٹ پر پہنچنے کے بعد سے لے کر اگلے پندرہ گھنٹے تک ہم مسلسل ائر پورٹ پر خوار ہوتے رہے ۔اس خواری کی وجہ یہی تھی کہ ہم حج گروپ کے ساتھ نہیں تھے اور ذاتی طور پر آنے والوں کو جان بوجھ کر خوار کیا جا رہا تھا۔ ہر طرف سے پریشانیوں کا سامنا کرنے کے بعدآخربغیر سامان کے مکہ میں اپنے مقررہ ہوٹل تک پہنچے ۔پندرہ گھنٹے سے زائد کی پریشانی،تھکن اور کوفت کے باوجودہوٹل میں اپنا کمرہ سنبھالنے کے بعد سیدھا خانہ کعبہ کی زیارت کے لئے حرم شریف روانہ ہو گئے۔حرم شریف پر نظر پڑتے ہی ایسے لگا جیسے ساری تکالیف کی قیمت وصول ہو گئی ہو۔
۔ ۔۔۔۔۔۔۴؍فروری(۳ ذی الحجہ ) کو ہم نے فجر کی نماز کے بعد پہلے ناشتہ کیا۔پھر ہوٹل میں جا کر آرام کیا۔ظہر کی نماز حرم شریف میں ادا کی۔پھر کچھ خریداری کرنے نکلے۔وہاں پاکستانی طرز کے لباس نہیں مل رہے تھے۔مجبوراََ عربی ملبوسات پر گزارا کرنا پڑا۔واپس آکر جب ہم دونوں نے عربی لباس پہن کر انہیں چیک کرنا چاہاتو عربی لباس میں ملبوس ایک دوسرے کو دیکھ کر ہنسنے لگے۔میں تو ہنستا ہی رہا لیکن ہنستے ہنستے مبارکہ کی آنکھوں میں نمی سی آ گئی۔اسے سامان کی گمشدگی کا بہت دکھ تھا۔میں نے اسے تسلی دی کہ پرانے زمانے میں لوگ بہت تکالیف اور دکھ اٹھا کر مکہ پہنچ پاتے تھے۔سو طرح کی بیماریوں سے گزرتے ہوئے ،دوران سفر ہی ان کے قافلے کئی مصائب میں مبتلا ہوتے۔خود عرب بدو ان کے قافلوں کو لوٹ لیا کرتے تھے۔ہم ہوائی جہاز سے بڑے آرام سے آئے ہیں۔صرف سامان غائب ہو اہے تو یہی سمجھ لیں کسی عرب بدو نے لوٹ لیا ہے۔اگر وہ سارا سامان موجود ہوتا لیکن صرف آپ کا پرس گم ہو جاتا تو ہم کتنی بری حالت میں ہوتے؟اس پرس میں اتنی رقم ہے کہ ہم ویسے ہی تین بیگ اور ویسے ہی سامان سے دوگنا سامان آسانی سے خرید سکتے ہیں۔
۔۔۔۔ ۴؍فروری کوخانہ کعبہ کی زیارت کی تو منظر بہت بدلا بدلا سا لگا۔غلافِ کعبہ کو اس کے اصل مقام سے شاید اندازاََ ڈیڑھ دو میٹر اونچا کر دیا گیا تھا اور اس کے نیچے سفید لٹھا قسم کا کپڑا سلائی کر دیا گیا تھا۔یہ صورت دیکھ کر دل کو دھچکا سا لگا ۔ کعبہ شریف غلاف میں اس ردو بدل کے باعث پھیکا پھیکا سا لگ رہا تھا۔حطیم کی روشنی بھی بجھی بجھی سی تھی۔پتہ نہیں یہ عالمی صورتحال پر خانہ کعبہ کی اداسی کا منظر تھا یا ویسے ہی میرے اپنے اندر کی اداسی تھی۔ویسے یہ بات مجھے سمجھ آ گئی تھی کہ بہت زیادہ عقیدت مند حجاج ،حج کے رش سے فائدہ اٹھا کر غلافِ کعبہ کے ٹکڑے قینچی سے کاٹ کر گھروں میں تبرک کے طور پر لے جاتے رہے ہیں(چوری کیا ہوا تبرک؟)۔غالباََ اسی وجہ سے حکومت نے حفاظتی تدبیر کے طور پرغلافِ کعبہ کو اونچا کردیا تھا۔یہ مناسب تدبیر تھی لیکن اس تبدیلی سے یوں لگتا تھا جیسے دل اور کعبہ دونوں ہی اداس ہیں۔
۔۔۔۔۔مغرب کی نماز کے بعد ہم حرم شریف سے نکل کر اپنے ہوٹل کی طرف جانے لگے تو مسلسل بڑھتے ہوئے رش میں پھنس گئے۔حجاج کی آمد میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا،سڑکوں پر کپڑا بچھا کر سامان بیچنے والے موجود،سڑک پر بے ترتیب ٹریفک کا ہجوم اور تنگ سڑکیں۔۔۔نماز کے بعد حرم شریف سے نکلنے والے حجاج کا ہجوم اتنا زیادہ تھا کہ ہم دونوں اس میں پھنس کر رہ گئے۔میں مبارکہ کو سنبھالنے کی کوشش کر رہا تھا کہ پیچھے سے ایک تیز ریلا آیا جس میں ہم دونوں تنکے کی طرح بہہ نکلے۔مبارکہ کی حالت اتنی غیر ہو گئی کہ شارع خالد بن ولید پر واقع ایک دوکان’’تسجیلات الاسلامیہ الخلفاء‘‘کے تھڑے پر کھڑے ایک صاحب نے پہلے مبارکہ کے چہرے پر پانی کے چھینٹے مارے اور پھر اسے کھینچ کر دوکان کے اندر کر لیا۔میری بھی جان میں جان آئی۔دوکان کے تھڑے پر چڑھے تو دیکھا وہاں پہلے سے ایسی چند اور خواتین بھی پناہ گزین تھیں اور بری طرح ہانپ رہی تھیں۔در اصل اس ایریا کا ہمارا سابقہ تجربہ عمرہ کے عام دنوں کا تھا ،ہمیں اندازہ ہی نہیں تھا کہ حج کے دنوں میں رش کی وجہ سے ایسی خوفناک صورتحال بھی پیش آ سکتی تھی۔اس تجربہ کے بعد ہم نے یہ احتیاط شروع کر دی کہ نماز کے بعد لگ بھگ ایک گھنٹہ تک حرم شریف کے اندر ہی بیٹھے رہتے تاکہ رش کا زور ٹوٹ جائے۔
۔۔۔ ۔۵؍فروری (۴؍ذی الحجہ )کو حجاج کی آمد میں اضافہ ہوا تو نمازی سڑکوں سے بھی پرے تک پھیلنے لگے۔ہم نے بھی رش کی یلغار میں آنے سے بچنے کے لئے حفاظتی تدابیر میں اضافہ کرلیا۔اس روز ہم دونوں نے عمرہ کیا۔
۔۔ ۔ ۔۶؍فروری (۵؍ذی الحجہ )کا دن گزشتہ دو دنوں کی طرح گزرا۔تاہم ۶اور ۷ فروریکی درمیانی رات ہم نے حرم شریف میں جاگ کر گزارنے کا ارادہ کیا۔چنانچہ بفضلہ تعالیٰ صحنِ کعبہ میں بیٹھ کرشب بیداری کی توفیق بھی ملی اور نوافل کی ادائیگی اور تلاوت قرآن پاک کے ساتھ جی بھر کر دعائیں کرنے کی توفیق بھی ملی۔طوافِ کعبہ کرنے والوں کے بڑھتے ہوئے ہجوم کے باوجود صحنِ کعبہ میں ہی رات گزارنے کی توفیق مل جانا بہت بڑی بات تھی۔اس شب بیداری کا سب سے بڑا اجر دیدارِ کعبہ کی صورت میں ملتا رہا۔سات فروری کا دن چڑھا تو نمازِ فجر کے کے بعد ہم لوگ صحنِ کعبہ سے اٹھ کرحرم شریف کے اس حصے میں آگئے جو باب الملک فہد والی سائڈ پر تھا۔ یہاں ہم نے ایسی جگہ حاصل کر لی جہاں سے خانہ کعبہ دکھائی دیتا رہتا۔ یہاں ہمیں دو ہلکے سے مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ہم نے اپنی ضروت کے مطابق جگہ سنبھال رکھی تھی۔ایک بار مبارکہ باتھ روم تک گئی تو اس دوران متعدد افراد نے خالی جگہ پر قبضہ کرنے کی کوشش کی۔بڑی مشکل سے ان سب سے جگہ بچائی۔جب میں باتھ روم کے لئے گیا تو تب مبارکہ کو بھی یہی مشکل درپیش رہی ۔
۔۔۔۔۔دوسرا مسئلہ صرف میرے لئے تھا۔ہماری صف سے اگلی صف میں تین خواتین نے ڈیرے ڈالے ہوئے تھے۔آبِ زم زم کے کولرز کے ساتھ بیٹھی ہوئی ان خواتین نے قرآن شریف پڑھنا شروع کردیا۔پھر انہوں نے ثواب کی غرض سے کولرز سے گلاسوں میں پانی بھر بھر کر وہیں سے آگے بڑھانا شروع کر دئیے۔ان کے ثواب کمانے کی نیت نے مجھے بلاوجہ گنہگار کئے رکھا۔’’ساقیانِ زم زم‘‘کو دیکھ کر دو تین حجاج کرام بھی ثواب کمانے کی غرض سے مستعد ہو کر کھڑے ہو گئے اور ان خواتین سے گلاس لے لے کر اگلی پچھلی صفوں تک پہنچانے لگ گئے۔ساقیانِ زم زم کو دیکھ کر بعض حجاج کرام کو ویسے ہی پیاس لگنے لگ گئی۔گلاس آگے پہنچانے والے ایک حاجی صاحب نے سرگوشی کرتے ہوئے مجھے بتایا کہ یہ خواتین مصر سے آئی ہیں۔یہ سبحان اﷲ اور استغفراﷲ ایک ساتھ پڑھنے کا نازک مقام تھا۔قلوپطرہ مصری حسن کی مثال تھی تو یہ خواتین بھی اس سے کم نہ تھیں۔باقی ہر قوم میں بہت خوبصورت چہروں کی ایک مخصوص تعداد ہوا کرتی ہے۔اوسط صورتیں وہی ہوتی ہیں جو ہم عام طور پراپنے ارد گرد اور آئینے میں دیکھتے رہتے ہیں۔
۔۔۔ ۔۔۸؍فروری (۷؍ذی الحجہ) کو ہم دونوں ’’حی الہجرۃ‘‘ علاقہ میں ’’عمارت السجینی‘‘پہنچے۔اس عمارت کی تلاش میں خاصا خوار ہونا پڑا۔ان کے جاری کردہ ایڈریس پر ’’الہجرۃ‘‘ درج تھا۔جبکہ مطلوبہ عمارت ’’حی الہجرۃ‘‘علاقے میں تھی۔بہر حال پہلے ہم کافی دیر تک ’’الہجرۃ‘‘ایریامیں ’’عمارت السجینی‘‘کو تلاش کرتے رہے۔کافی خواری کے بعد اﷲ کے ایک بندے نے رہنمائی کی تو ’’حی الہجرۃ‘‘ تک پہنچ پائے۔وہاں مذکورہ عمارت کے دفتر میں گئے تو جان میں جان آئی۔لیکن پھر جب انگلش جاننے والے عربی کارکنوں سے واسطہ پڑا تو یہاں بھی وہی شانِ بے نیازی تھی جو ائر پورٹ سے لے کر ہر جگہ تک عام طور پر حجاج کے ان خدمتگاروں کا رویہ بن گیا ہے۔یہاں مجھے ابوجہل یاد آگیا ہے۔اس کی بد نصیبی تھی کہ سرورِ کائنات حضرت خاتم النبیین محمد مصطفی ﷺ کو دیکھ کر بھی آپﷺکو قبول کرنے سے محروم رہا لیکن اس بد نصیب بلکہ بد بخت کو بھی اپنے زمانے میں حاجیوں کی خدمت کی بڑی توفیق ملتی رہی تھی۔عربی روایات میں بڑی صراحت سے لکھا ہوا ہے کہ ابوجہل حاجیوں کی خدمت میں پیش پیش رہتا تھا۔بہت بڑا سردار ہونے کے باوجود پانی کی مشک اپنے کندھوں پر ڈال کر حاجیوں کو پانی پلایاکرتا تھا۔۔۔۔ایک وہ ایمان کی سعادت سے محروم بد بخت تھا اور دوسری طرف یہ ’’ایمان کی دولت سے مالا مال‘‘ عرب مومنین تھے جو کوئی سردار بھی نہ تھے ،جن کی ڈیوٹی بھی حاجیوں کی پریشانیوں کو دور کرنا تھا لیکن یہ’’ صاحبِ ایمان‘‘خدمتگار حاجیوں کو پریشان کرکے ان کی خدمت کر رہے تھے۔
۔۔ ۔۔۔کئی خدمتگاروں کے ہاتھوں خوار ہونے کے بعد ایک نوجوان امین نغامذی سے واسطہ پڑا۔پہلے سارے کارکنوں سے بالکل مختلف ۔۔۔شائستہ،نرم رو اور بات کو سمجھ کر مسئلے کا ممکنہ حل نکالنے کی کوشش کرنے والا۔۔۔۔۔اس نوجوان نے ہمارے ہر چھوٹے بڑے در پیش مسئلہ کو سنا،سمجھا اور پھر موقعہ پر ہی اس کا ممکنہ حل بھی نکال دیا۔امین نغامذی سے ملنے کے بعد انتظامی اور نقل و حمل کے امور سے متعلق ذہن سے بہت سا بوجھ اتر گیا۔ہمیں رات کو یہیں پہنچ کر منیٰ کے لئے گاڑی لینا طے ہوا تو ہم اطمینان سے خریداری کرنے چلے گئے۔مقررہ وقت پر پھر عمارت السجینی میں پہنچ گئے۔
۔۔ ۔۔رات بارہ بجے کے بعد ۹ فروری(۸ ذی الحجہ ) کی تاریخ شروع ہو چکی تھی۔جب منیٰ کے لئے ہماری روانگی ہوئی ۔منیٰ خیموں کا عالی شان شہر بنا ہوا تھالیکن جاتے ہی پہلی خرابی یہ ہوئی کہ بس ڈرائیور نے ہمیں ہمارے کیمپ 39-B کی بجائے نمبر39 پر اتار دیا۔وہاں پھر پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔مبارکہ کی طبیعت بگڑنے لگی ۔وہ تھک ہار کر سڑک کے کنارے پر ہی بیٹھ گئی۔آخر ایک ویگن آئی اور ہمیں اصل ٹھکانے پر لے گئی ۔ بس میں بیٹھے ہوئے دور سے خیموں کو دیکھ کر مجھے لگا تھا کہ ان کے اندر مجھے گھٹن ہو سکتی ہے۔لیکن نہ صرف خیمے بے حد کشادہ تھے بلکہ ان کے اندربڑے بڑے ائر کنڈیشنڈ لگے ہوئے تھے۔گھٹن کی بجائے سردی لگنے لگی۔خواتین کے خیمے الگ تھے اور مردوں کے الگ۔تاہم رابطہ کرنے میں زیادہ دقت نہیں تھی۔مبارکہ کو اتنی زیادہ ٹھنڈ لگ رہی تھی کہ اس کے کہنے پر میں نے خود اس کے خیمے میں جا کر اس کا ائر کنڈیشنڈ بند کیا۔پھر بھی صبح تک مبارکہ کی حالت کافی خراب ہو گئی۔چنانچہ ڈاکٹرکو بلانا پڑا۔ایک ایمبو لینس آئی۔وہیں پر مبارکہ کی دیکھ بھال کی گئی اور پھر وہ لوگ دوا دے کر رخصت ہوئے۔۹؍فروری کا سارا دن منیٰ میں اپنے اپنے خیموں میں نمازیں،نوافل کی ادائیگی کرتے،تلاوت قرآن پاک کرتے اور دعائیں کرتے ہوئے گزارا۔
۔۔۔۔اگلے روز ۱۰ ؍فروری(۹؍ذی الحجہ)کو صبح سویرے ہی عرفات کے لئے روانگی ہوئی۔وقوف عرفات حج کا رکنِ اعظم ہے۔یہاں حج کا خطبہ ہوتا ہے اورمسجد نمرہ میں خطبہ عید ہوتا ہے اور اس سے ملحق بڑے میدان میں نماز باجماعت کے ساتھ اپنے اپنے گروپوں میں نماز با جماعت کا انتظام ہوتا ہے۔ہم نے اپنے ہی گروپ میں نماز با جماعت پڑھی۔(یہاں گروپ سے مرادصرف یہ ہے کہ ہم جس حصے میں مقیم تھے وہاں کے سارے لوگوں نے باجماعت نماز ادا کی)شام ہونے کے بعد یہاں سے مزدلفہ کے لئے روانگی ہوئی۔یہ ایک کھلا میدان ہے۔یہاں بے سروسامانی کی حالت میں کسی چھت کے بغیر اور مرد ،عورت کی کسی تفریق کے بغیر جہاں جگہ ملے وہاں رہ کر پوری رات عبادت میں گزارنی ہوتی ہے۔لاکھوں لوگوں کا ہجوم یکجا ہوا تو گردو غبار بھی بہت زیادہ بڑھ گیا۔روایت ہے کہ مزدلفہ میں جو کوئی ساری رات جاگ کر دعا مانگتا رہے ،اس کی دعا قبول ہوتی ہے۔حقیقتاََ دن بھر میدانِ عرفات میں عبادت کے بعد مزدلفہ پہنچنے تک ہی انسان اتنا تھک جاتا ہے کہ اس کا رات بھر جاگنا ہی مشکل ہوجاتا ہے اور پھر انہماک کے ساتھ دعا مانگنے کی کیفیت پیدا ہونا تو اور بھی مشکل ہو جاتا ہے۔شاید اسی لئے اسی موقعہ پر قبولیت دعا کاچانس زیادہ کردیا گیاکہ مانگنے والوں کو اتنا ہوش ہی کہاں ہو گا۔مزدلفہ میں سب کچھ غیر منظم تھا۔کوئی سوناچاہے تو جیسے چاہے ،جہاں چاہے دستیاب صورتحال کے مطابق سو سکتا تھا۔محرم اور غیر محرم کی کوئی تفریق نہ تھی۔بس کوئی اپنے طور پر احتیاط کرلے تو کر لے۔
۔۔۔۔۔۔یہاں کے گردو غبار کی وجہ سے مبارکہ کی حالت ایک دفعہ پھر بگڑ گئی۔ لیکن اب صبر کے ساتھ تکلیف برداشت کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔خود مجھے بھی کھانسی کی تکلیف ہو گئی تھی اور کھانس کھانس کر برا حال ہو گیا تھا۔یہیں سے میں نے منیٰ میں شیطان کو مارنے کے لئے اپنے اور مبارکہ کے حصے کی کنکریاں جمع کر لیں۔
۔۔ ۔۔۔۱۱؍فروری کو ہم لوگ گرتے پڑتے منیٰ میں اپنے خیموں تک پہنچے ۔ مبارکہ کی علالت کے باعث اسے اس کے خیمے میں چھوڑا اور خود شیطان کو کنکریاں مارنے کے لئے چلا گیا۔ ۱۰ ذی الحجہ کو صرف بڑے شیطان کو کنکریاں مارنا ہوتی ہیں۔شیطان تک پہنچتے ہوئے رش اتنا زیادہ تھا کہ مجھے اپنا دَم گھٹتا ہوا محسوس ہونے لگا۔پھر بھی جیسے تیسے ہمت کرکے میں نے پتھر مارنے کا کام پورا کر لیا۔بعد میں پتہ چلا کہ اسی ہجوم میں ۱۴ ۔افرادرش کی وجہ سے کچلے گئے یا دَم گھٹنے سے ہلاک ہو گئے۔شیطان کو کنکریاں مار کر نکلا تو باہر آکر سر کا حلق کرایا۔یعنی سر پر مکمل استرا پھرایا۔یہاں سے فراغت کے بعد کھانے کے لئے کچھ عربی قسم کا چاولوں اور مرغ کاکھانا خریدا۔پیک کرایا اور منیٰ میں اپنے خیموں کی طرف روانہ ہوا۔ لیکن ایک جیسے خیموں کو دیکھ کر ایسا چکر آیا کہ اپنے خیموں کا رستہ نہیں ملا۔منیٰ میں بڑے شیطان کو کنکریاں مارنا بجائے خود بہت بڑی مشقت کا کام تھا اس کے بعد کچھ آرام کرنا ضروری تھا لیکن میں رستہ بھول گیا تھا اور اب پیدل چلتے ہوئے اپنے ایریا کے خیمے ڈھونڈتا پھر رہا تھا۔جگہ جگہ سعودی وزارت حج کے متعین کردہ اہلکار اور پولیس موجود تھی ۔ایک ایک سے اپنے خیمے کا رستہ پوچھا لیکن مجال ہے جو کسی نے انسانوں کی طرح بات کرنا بھی گوارا کیا ہو۔رہنمائی کرنا تو بعد کی بات ہے۔اپنے خیمے کا لکھا ہوا، اتہ پتہ میرے پاس موجود تھا لیکن چار گھنٹے کی خواری کے باوجود کسی سرکاری اہلکار یا پولیس والے نے کسی قسم کی کوئی رہنمائی نہیں کی۔پتہ نہیں ان سب کو وہاں کس مقصد کے لئے تعینات کیا گیا تھا۔
۔۔۔۔۔چار گھنٹے کی اس خوفناک تلاش کے بعد حقیقتاََ میری کیفیت ایسی ہو گئی کہ جی چاہا چھوٹے بچوں کی طرح سر پر ہاتھ رکھ کر اونچی آواز سے رونا شروع کر دوں۔بس ادھر یہ کیفیت بنی اور اُدھر ایک حاجی نے میری رہنمائی کر دی۔خدا جانے وہ حاجی کس ملک کا تھا اور کس زبان میں سمجھا رہا تھا لیکن میرے لکھے ہوئے ایڈریس سے اسے میری جائے قیام کا اندازہ ہو گیاتھا اور اس نے جس زبان میں بھی مجھے سمجھایا ، سمجھ میں آگیا تھا۔ میرے خیموں کا ایریا میرے سامنے تھا لیکن ایک لمبے سے چکر کے بعدوہاں تک پہنچنا ممکن تھا۔لمبے چکر کے بارے میں بھی حاجی بھائی نے سمجھا دیا اور میں انتہائی تھکاوٹ کی حالت میں لمبا چکر مکمل کرکے اور مزید کسی چکر میں پڑے بغیر اپنے خیمے تک پہنچ گیا۔مبارکہ کچھ آرام کرنے کے باعث قدرے بہتر تھی اورمیری حالت کافی خراب ہو چکی تھی پھر بھی ہم نے حج کے طریق کے مطابق مکہ شریف جانے اور طواف و سعی کا فرض ادا کرنے کے لئے کمرِہمت کس لی۔خیموں کی حدود سے باہر آکر بر لبِ سڑک کھڑے ہو گئے۔چند ناکامیوں کے بعد ایک ویگن میں جگہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔اس ویگن نے حرم شریف سے خاصی دور اتارا۔ ان کی مجبوری بھی جائز تھی کہ اس رش میں جتنی دیر میں ویگن وہاں پہنچ پاتی پیدل چلنے والے اس سے کہیں پہلے پہنچ جاتے۔ویگن سے اتر کر پھر پیدل چلنے لگے ۔ ہمیں جتنا سفر حرم شریف پہنچنے تک کرنا تھا لگ بھگ اتنا ہی سفر پھر آگے اپنے ہوٹل تک پہنچنے کے لئے کرنا تھا۔گرتے پڑتے اپنے ہوٹل تک پہنچے۔یہاں حکم کے مطابق اپنا احرام کھولا۔غسل کیا اور نئے کپڑے پہن لئے۔مبارکہ بھی غسل کرکے نئے کپڑے پہن کر تیار ہو گئی۔ہوٹل کی انتظامیہ کو ہم نے پہلے ہی سے چھ بکروں کی قربانی کے لئے رقم دے کر ضروری کاروائی کر لی تھی۔یہ قربانی ایک ایک ہم دونوں کی طرف سے تھی اور باقی چار ابا جی،امی جی،ماموں ناصر اور ممانی مجیدہ کی طرف سے کرائی تھیں۔قربانی کا گوشت آیا ہوا تھا ،انتظام کرنے والوں نے کچھ گوشت پکا کر بھی رکھا ہوا تھا۔ہم نے اس میں سے تھوڑا سا کھایا اور پھر حرم شریف چلے گئے۔نماز عشاء کے بعد ہم طواف اور سعی کے لئے مستعد تھے۔
۔۔۔۔پہلے عمرہ میں،منیٰ جانے سے پہلے ،طواف کرتے ہوئے ہم گراؤنڈ فلور سے خانہ کعبہ کے گرد تین چکر لگا پائے تھے کہ ہجوم کی وجہ سے مجھے لگا مبارکہ اس میں کچلی جا سکتی ہے۔چنانچہ باقی کے چار چکر ہم نے دوسری منزل سے جا کر پورے کئے تھے۔اس بار پہلے ہی طے کر لیا تھا کہ طواف اور سعی کے سارے مراحل اوپر والی کسی منزل پر طے کریں گے۔چنانچہ تیسری منزل سے ہم نے خانہ کعبہ کا طواف شروع کیا۔مبارکہ کے لئے وہیل چیئر کا انتظام کر لیا تھا۔یہ ایک چکر زمین سے خانہ کعبہ کے گرد تین چکروں کے برابر لگا لیکن رش کی موجودہ حالت میں یہی بہتر لگا۔طوافِ کعبہ کے بعد سعی کے چکر شروع ہوئے۔میں سعی کے دوسرے پھیرے میں تھا جب مبارکہ مجھے ملی اور بتایا کہ اس کا چھٹا چکر ہے۔ہم نے سعی کے بعد سعی کے اختتام والے دروازے پر ملنے کا طے کیا۔جب میں نے سعی کا عمل مکمل کیا اورسعی کے اختتام والے دروازے سے باہر گیا تو مبارکہ غائب۔۔۔
۔۔۔۔۔۔صبح سویرے منیٰ جانے سے لے کرموجودہ وقت تک میں مسلسل چلنے کے عالم میں تھا۔چلنا بھی ایسا جس میں زیادہ تر پریشانی اوربے یقینی ساتھ ساتھ تھی۔ ساڑھے تین گھنٹوں میں طواف اور سعی کے مکمل ہونے والے عمل کے بعداب ایک نئی پریشانی نے گھیر لیا۔مبارکہ کو کہاں تلاش کیا جائے؟پہلے تو باہر والے دروازے کے آس پاس ڈھونڈتا رہا۔پھر طواف والے ایک کھلے حصے میں چلا گیا کہ وہاں عقب میں بچھی کھلی صفوں میں شاید کہیں مل جائے۔کبھی ادھر اور کبھی اُدھر۔۔۔لیجئے میری ذاتی سعی اب شروع ہوئی۔۔۔بی بی حاجرہ اپنے لختِ جگر کے لئے بے چینی سے دوڑ رہی تھیں تو میں اپنے لختانِ جگرکی والدہ محترمہ کے لئے پریشان ہوا پھر رہا تھا۔کبھی سعی کے اختتام والے دروازے کی طرف توکبھی آغاز والی طرف۔۔کبھی بالکل باہر جا کر تو کبھی سعی یا طواف والے ہجوم میں جا کر۔کبھی کسی طرف اور کبھی کسی طرف۔ کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کیاکروں۔تیسری منزل پر موجود سرکاری اہلکاروں کو اپنی پریشانی بتائی ،وہ ویسے بھی کچھ نہیں کر سکتے تھے اوپر سے ان کا حسبِ معمول نازیبا رویہ۔
۔۔۔۔ ۔ننگے پاؤں ہی حرم شریف سے باہر نکل آیا۔رستے میں ایک ہندستانی نوجوان مل گیا ۔ اس نے میری پریشانی جان کر پولیس اسٹیشن تک میری رہنمائی کی۔وہاں ترجمان کا فریضہ بھی ادا کیا۔لیکن جس پولیس نے جدہ سے لے کر منیٰ تک کسی مرحلے کی کسی پریشانی میں دھیلے کا تعاون نہیں کیا وہ اس صورتحال میں کیا مدد کرتے ۔میں نے ان سے کہا کہ آپ حرم شریف کی تیسری منزل کے اہلکاروں کو موبائل پر یہ واقعہ بتا کر اتنا کہہ دیں کہ کوئی خاتون اس پریشانی میں ملیں تو آپ کو اطلاع کر دیں۔لیکن پولیس اسٹیشن نے اس رنگ کاکوئی تعاون کرنے سے بھی انکار کیا۔
۔۔۔ ۔۔پولیس اسٹیشن سے مایوس ہو کر ہندوستانی دوست کا شکریہ ادا کیا اورحرم شریف کی طرف لوٹ آیا۔میری سعی گیارہ بج کر پچاس منٹ پر مکمل ہوئی تھی اور اب رات کے دو بج رہے تھے۔ میں گراؤنڈ فلور پر خانہ کعبہ کے سامنے اس طرف کھڑا ہو گیا جہاں سے حطیم شریف،مقامِ ابراہیم اور حجر اسود اور ملتزم شریف والے حصے میرے سامنے تھے۔ننگے پاؤں چل چل کر ویسے ہی مت ماری گئی تھی۔اس وقت دعا کے لئے الفاظ بھی نہیں سوجھ نہیں رہے تھے۔حج پر آنے سے پہلے مجھے بلہے شاہ کی ایک کافی ریاض قادری کی آواز میں دیکھنے اور سننے کا موقعہ ملا تھا۔مجھے اس کی پیش کش اور گانے کا انداز سب بہت اچھا لگا تھا۔نئی موسیقی کے اوچھے پن کی بجائے اس میں وہی پاکیزگی ملتی تھی جو بلہے شاہ کی کافی کا خاصہ ہے۔ پتہ نہیں کیسے اس کافی کا ایک بند میرے ذہن میں گونجنے لگا۔منیٰ کے لئے صبح ساڑھے آٹھ بجے روانگی کے سفر سے لے کر اب تک میں مسلسل چل رہا تھا۔کبھی سفر کے باعث،کبھی رستہ بھول کر،کبھی طواف اور سعی کے لئے اور اب مبارکہ کو ڈھونڈنے کے لئے۔۔۔صبح ساڑھے آٹھ بجے سے اب رات کے دو بجے کا وقت تھا اور میرے پاؤں کا چکر ختم ہونے میں نہیں آرہا تھا۔پاؤں میں سچ مچ چھالے سے پڑ گئے تھے۔شاعری میں چھالوں کا ذکر بڑی آسانی سے کر لیا تھا اب سچ مچ واسطہ پڑا تو پتہ چلا کہ پاؤں کے چھالے کیا ہوتے ہیں۔زخمی پیر ،بے پناہ تکان اور ان سب سے بڑھ کر پریشانی اور بے بسی ۔ اسی حالت میں خانہ کعبہ میرے سامنے تھا۔پتہ نہیں کیسے بلہے شاہ کی کافی کا بند ذہن میں گونجنے لگا اور شاید میں اسے ہلکے ہلکے اپنے ہونٹوں سے بھی ادا کرنے لگا۔
ایس عشق دی جھنگی وچ مور بولیندا
ایس عشق دی دی جھنگی وچ مور بلیندا
ساہنوں قبلہ تے کعبہ سونہنا یار ڈسیندا
سانہنوں گھائل کر کے فر خبر نہ لئی آ ۔۔سانہنوں گھائل کرکے فیر خبر نہ لئی آ
تیرے عشق نچایا کر تھیا تھیاتھیا۔۔۔۔۔۔۔۔تیرے عشق نچایا کر تھیا تھیا تھیا
۔۔۔۔۔میں کتنی دیر تک وہاں تھیا تھیا کی کیفیت میں رہا کچھ نہیں کہہ سکتا۔بس جب اس کیفیت سے باہر آیا تو ایک بار پھر حرم شریف کی تیسری منزل پر چلا گیا۔وہاں نماز گاہ والی جگہ سے ایک سرکاری اہلکار سے ’’ زوجِ گم گشتہ ‘‘کے بارے میں استفسار کیا تو اس نے بتایا کہ سعی کے اختتامی حصے کے قریب ایک جگہ چند گم شدہ خواتین ہاتھ بلند کرکے کھڑی ہیں ان میں دیکھ لیں۔سعی کرنے والوں کے ہجوم سے گزرتا ہوا وہاں تک گیا تو دور سے چند خواتین ایک اونچی جگہ پر اپنے دائیں ہاتھ بلند کئے کھڑی تھیں۔ایک چہرے کو دیکھ کر کبھی گمان ہوتا تھا کہ یہ مبارکہ ہے اور کبھی لگتا تھا آنسوؤں سے دھلے ہوئے چہرے والی کوئی فلسطینی عورت ہے۔یہ خدشہ بھی تھا کہ اگر یہ مبارکہ نہ ہوئی اور میں نے اسے اپنی طرف متوجہ کیا تو یہیں کوئی تماشہ نہ بن جائے۔بہر حال خدا خدا کرکے مبارکہ کی نظر بھی مجھ پر پڑی اور پھر دونوں کی جان میں جان میں آئی۔
۔۔ ۔۔حرم شریف سے نکلے تو بالکل نڈھال ہونے کے باوجود محض اس وجہ سے کچھ تازہ دَم ہو گئے کہ دونوں بچھڑے ہوئے مل گئے تھے۔وہاں سے نکل کر سامنے والی سڑک پر گئے تاکہ اب سیدھا منیٰ کی طرف نکل جائیں۔ اڑھائی بجے سے لے کر چار بجے تک کسی بس یا ویگن کے لئے بھاگ دوڑ کرتے رہے۔اس بھاگ دوڑ کی وجہ سے کبھی سڑک پر اور کبھی سڑک کے کنارے پر رہے۔گاڑیوں کے دھوئیں نے مزید ستیاناس کر دیا۔جب رات کے (بلکہ صبح کے) چار بج گئے اور کوئی گاڑی نہیں ملی تو مجبوراََ ہوٹل کی طرف روانہ ہو گئے۔ گیارہ فروری سے بارہ فروری ہو چکی تھی اور میں مسلسل چل رہا تھا۔ وہاں پہنچنے کے تھوڑی دیر بعد مبارکہ کی حالت مزید خراب ہونے لگی۔پہلے ہوٹل کے ڈاکٹر کو بلایا۔اس نے حالت دیکھتے ہوئے ایمبولینس منگا لی۔اب ہم لوگ ایمبولینس میں بیٹھ کر عبدالعزیز ہسپتال جا رہے تھے۔وہاں ضروری دیکھ بھال کے بعد دوائیں وغیرہ دے کر ہمیں چھٹی دے دی گئی۔وہاں سے نکل کر حرم شریف چلے گئے۔ ظہر کی نماز ادا کی۔پھر ہوٹل واپس آئے۔یہاں مبارکہ کو چھوڑا۔کیونکہ اب اس کا منیٰ جانا زیادہ مشکل ہو گیا تھا۔دوا کھا کر اس پر غشی سی طاری ہو رہی تھی۔میں نے اسے بتا دیا کہ آج تینوں شیطانوں کو کنکریاں مارنی ہیں۔آپ کے حصے کی کنکریاں آج بھی میں خود ہی مار کر آؤں گا۔ویسے سچی بات ہے کل کے تجربے کے باعث مجھ پر خوف سا طاری تھا کہ کل صرف ایک شیطان کو مارنے میں کتنا حشر ہو گیا تھا،آج تینوں شیطانوں کو پتھر مارنے ہیں۔پتہ نہیں وہاں سے زندہ واپسی ہوتی ہے یا نہیں۔
۔۔۔ ۔۔جمرات پہنچ کر شیطان کو کنکر مارنے کا سلسلہ شروع ہوا تو بے شک رش کافی تھا لیکن روانگی کے وقت مجھ پر جتنا خوف طاری تھا وہ سارا دور ہو گیا۔میں نے تھوڑی محنت اور ہمت سے کام لے کر نہ صرف تینوں مقامات پر اپنے حصے کی کنکریاں ماریں بلکہ مبارکہ کے حصے کی کنکریاں بھی مار لیں۔اس بار یہ بھی اندازہ ہوا کہ ہجوم کے باعث جو ہلاکتیں ہوتی ہیں اس میں ہجوم کی زیادتی سے زیادہ بد انتظامی کا دخل ہے۔جہاں سے لوگ پتھر مارنے کے لئے جا رہے ہیں وہیں سے واپس آ رہے ہیں۔کوئی لائن یا ترتیب نہیں ہے۔بس جب ایک طرف کا چھوٹا سا ہجوم اور مخالف سمت کا چھوٹا سا ہجوم برابر کی زور آزمائی شروع کردیتا ہے توپھر کچلے جانے سے یا دَم گھٹنے سے اموات ہو جاتی ہیں۔میں انتہائی معذرت کے ساتھ لکھ رہا ہوں کہ اگر جرمنی کی کسی کمپنی کو اس کا انتظام سونپ دیا جائے تو یہ لوگ ایسی سیٹنگ کر دیں گے کہ لاکھوں کی تعداد کے باوجود حجاج کرام اطمینان سے اس مرحلہ سے گزر سکتے ہیں۔جتنی اموات بھی ہوتی ہیں محض بد انتظامی کی وجہ سے۔۔۔وہ بد انتظامی جو سارے اسلامی ملکوں کی شناخت بن چکی ہے۔
۔۔۔۔۔مجھے اندازہ نہیں تھا کہ تین شیطانوں سے اتنی آسانی سے گلو خلاصی ہو جائے گی۔وہاں سے نکلا تو اطمینان سے سڑک کے کنارے لگی ہوئی عارضی دکانوں کو دیکھتا چلا۔اپنی پسند کی چندچیزیں بھی خرید لیں۔واپسی کے لئے ایک ویگن میں جگہ مل گئی اور میں شیطانوں کو کنکر مار کر منیٰ کی بجائے اطمینان سے واپس مکہ پہنچ گیا۔اصولاََ ہمیں یہ دن منیٰ کے خیموں میں گزارنے چاہئیں تھے۔لیکن مبارکہ کی حالت کے پیشِ نظر ہوٹل میں قیام کرنا پڑ رہا تھا۔منیٰ میں ہم دوراتیں ہی گزار سکے تھے جبکہ ایک رات مزدلفہ میں گزری تھی۔
۔۔۔۔۔شیطان کو دوسرے دن پتھر مارنے کے تجربے کے بعد مجھے کافی تسلی ہو گئی تھی اور ۱۳؍فروری(۱۲ ذی الحجہ) کومیں ہوٹل سے نکلنے سے پہلے جوتوں کے تسمے باندھتے ہوئے ڈائیلاگ مارتے ہوئے کہہ رہا تھا او شیطانو! تیار ہو جاؤ میں آرہا ہوں۔۔لیکن جب جمرات پہنچا تو رمی جمرات(شیطانوں کو کنکریاں مارنے کا عمل) ۱۰ذی الحجہ سے بھی زیادہ سخت ثابت ہوئی۔لگتا ہے شیطان میرے للکارنے کا برا مان گئے تھے۔اس بار رش اتنا زیادہ تھا کہ ایک مرحلہ پر تو مجھے سچ مچ اپنا دل بیٹھتا ہوا محسوس ہوا اور لگا کہ میں گیا ۔۔۔اگرچہ شیطان کو مارنے میں بری طرح نڈھال ہو گیا لیکن پھر بھی جیسے تیسے یہ کام مکمل ہو گیا۔جمرات سے واپسی میں بھی مشکل ہو گئی۔آج شیطان کو کنکریاں مارنے کا آخری دن تھا اور روایات کے مطابق منیٰ میں مقیم حجاج کی اکثریت آج ہی غروبِ آفتاب سے پہلے حدودِ منیٰ سے نکل جانا چاہتی تھی۔اسی لئے وہاں سے واپسی کے لئے کوئی گاڑی نہیں مل رہی تھی۔پیدل چلنے والوں کے کئی کارواں رواں دواں تھے۔مبارکہ ساتھ نہیں تھی تو مجھے لگا کہ میں اکیلا پیدل چل کر حرم شریف تک پہنچ ہی جاؤں گا۔سڑک کے کنارے کنارے بہت سے لوگ پیدل جا رہے تھے۔میں بھی اسی طرف چلنے لگا۔آدھے گھنٹے کے سفر کے بعد ایک سکوٹر والا میرے قریب آکر رُک گیا۔یہ کوئی بنگالی نوجوان تھا۔اس سے ہوٹل تک پہنچانے یا حرم شریف تک پہنچانے کی بات ہوئی۔۳۰ ریال میں معاملہ طے پایا۔یوں میں نسبتاََ کم تکلیف کے ساتھ ہوٹل پہنچ گیا۔مبارکہ کو تسلی دی ۔کچھ دیر آرام کیا۔
۔۔۔۔پھر ہم عشاء کی نماز کے لئے حرم شریف کی طرف روانہ ہوئے۔مبارکہ نے ہمت کر لی تھی کہ جیسے تیسے حرم شریف چلنا ہے۔نماز عشاء کے بعدساڑھے نَو بجے تک ہم صحنِ کعبہ میں بیٹھے رہے۔ اتنے بے پناہ رش کے باوجود صحنِ کعبہ میں بیٹھ کر اتنی دیر تک دیدارِ کعبہ کی سعادت مل جانا بہت بڑی بات تھی۔پھر طواف کرنے والوں کا دائرہ وسیع ہونے لگا توہمیں صحنِ کعبہ سے پیچھے ہٹنا پڑا کہ طواف کرنے والوں کا حق فائق تھا۔
۔۔۔۔۱۴؍فروری (۱۳؍ذی الحجہ) جمعتہ المبارک کا دن اور مکہ شریف میں ہمارا آخری دن کہ اگلے روز ۱۵؍فروری کو ہمیں مدینہ شریف روانہ ہوجانا ہے۔اس لحاظ سے مکہ میں یہ ہماراآخری دن تھا۔منیٰ سے واپس آنے والوں کے باعث کل رات سے ہی مکہ میں رش بہت بڑھ چکا تھا ۔ہمیں آج طوافِ وداع بھی کرنا ہے۔فجر کی نماز کے بعد ہم نے حرم شریف میں ہی سورۃ یاسین اور سورۃ صافات پڑھ کر اپنی دلی مرادیں مانگیں۔پھر وہیں بیٹھے رہے۔دن کے دس بجنے والے تھے جب میں نے باہر آکر ایک وہیل چئیر والے سے بات کی ۔بات طے ہو گئی تو مبارکہ کو بھی باہر لے آیا۔اس بار ہم نے کسی گمشدگی کی صورت میں اپنا میٹنگ پوائنٹ طے کر لیا تھا۔مبارکہ نے وہیل چیئر پر بیٹھ کر تیسری منزل سے طواف شروع کیا اور میں نے صحنِ کعبہ ہی میں طواف کی سعادت حاصل کی۔10.20 بجے سے لے کر11.35 بجے تک یہ طواف مکمل ہو گیا۔مبارکہ بھی جلد ہی میٹنگ پوائنٹ پر پہنچ گئی۔اس کے بعد ہم نے جمعہ نماز کی تیاری شروع کی۔جمعہ نماز کی ادائیگی کے بعد میں نے ایک قریبی ہوٹل سے کھانا پیک کرایا۔ حرم شریف کے باہر والے وسیع فرش پر بیٹھ کر ہم نے وہ کھانا کھایا۔خدا کاشکر ادا کیا۔ کھانا کھانے کے بعد مبارکہ کی طبیعت خراب ہونے لگی تو اسے ہوٹل لے آیا۔وہاں اسے دوا دینے کے ساتھ آرام کرنے کو کہا اور پھر خود حرم شریف آگیا۔یہاں سے عشاء کی نماز کے بعد ہوٹل سے کھانا پیک کرایا۔مبارکہ کو کھانا پہنچایا۔پھر شارع خالد بن ولید کی سڑک کے کنارے لگی ہوئی فرشی مارکیٹ کو دیکھتا ہوا حرم شریف پہنچ گیا۔اس بار صحنِ کعبہ تک پہنچ کر میں نے مقامِ ابراہیم اور درِ کعبہ کے کے سامنے ایک جگہ حاصل کر لی۔طوافِ کعبہ کرنے والوں کے وسیع دائرے سے ذرا ہٹ کر مجھے ایسی جگہ مل گئی جہاں سے دیدار ممکن تھا۔بیٹھ کر بھی کافی دیر تک دیدار کیا۔پھر کھڑے ہو کر الوداعی نظر ڈالنا چاہی تو جیسے پاؤں فرش سے جم گئے اور آنکھیں کعبہ شریف پر ہی گڑی رہ گئیں۔یہ الوداعی نظر خاصی طویل ہو گئی۔شاید بیٹھ کر کئے گئے دیدار سے بھی زیادہ طویل۔۔۔اس سفر کے دوران اٹھائی گئی ساری تکالیف اور پریشانیاں ایک ایک کرکے سامنے آرہی تھیں اور اس دیدار کی لذت میں بے معنی ہوتی جا رہی تھیں جو اس الوداعی نظر سے نصیب ہو رہی تھی۔پھر میں ویسی ہی اداسی کی کیفیت کے ساتھ باہر آیا جیسی بہت ہی پیاروں سے بچھڑتے لمحوں والی اداسی ہوتی ہے۔
۔۔۔۔۔۱۵؍فروری(۱۴؍ذی الحجہ) کو ہم صبح سویرے ساڑھے پانچ بجے ہوٹل کا کمرہ چھوڑ کر اپنے متعلقہ آفس میں پہنچ گئے۔وہیں فجر کی نماز ادا کی۔وہیں سے ہمیں بس اسٹیشن تک لے جایا گیا۔مکہ سے مدینہ تک کا یہ سفر انتہائی تکلیف دہ تھا۔ہم صبح ساڑھے پانچ بجے کے نکلے ہوئے رات ساڑھے گیارہ بجے مدینہ میں اپنے ہوٹل تک پہنچے۔یہ بس کا ایک عام سا سفر تھا۔اس میں کہیں ٹریفک جام ہونے کا مسئلہ نہیں تھا۔اس کے باوجود پورا اہتمام کیا گیا تھا کہ حجاج کرام کو زیادہ سے زیادہ ثواب ملتا رہے(روایت ہے کہ سفرِ حج کے دوران جتنی تکالیف اور پریشانیاں ہوں اتنا ہی سارے سفر کا ثواب ملتا ہے)۔
۔۔۔۔۔۱۶؍فروری کو فجر کی نماز کے لئے نکلے۔اس بار ہمارا ہوٹل مسجد نبوی سے کافی قریب ہے۔میری کھانسی کی تکلیف شدت اختیار کر گئی ہے۔مبارکہ تو خیر ویسے ہی مستقل بیمار ہے۔خواتین کے لئے اس موقعہ پر زیارتِ روضۂ رسولؐ کا کوئی انتظام نہیں تھا۔شاید اتنے رش میں ممکن بھی نہیں تھا۔میں نے پہلے ہی مرحلہ میں تمام تر رش کے باوجود روضۂ رسولؐ پر حاضری کی سعادت حاصل کرلی۔مدینہ کے کھانے والے ہوٹل، مکہ کے مقابلہ میں زیادہ سستے ہیں۔لیکن ہم دونوں کے گلے بری طرح خراب ہیں۔نو ا لہ حلق سے نہ اترے تو سستا اور اچھا کھانا بھی کس کام کا؟۔بہر حال جتنا ہو سکا مدینہ میں گھوم پھر لئے۔نمازیں بروقت ادا کرنے کی توفیق پالی۔کچھ خریداری بھی ہو گئی۔LTU والوں سے اپنی واپسی کی سیٹ اوکے کرانا ضروری تھا لیکن ٹیلی فون پر نہ تو ہوائی کمپنی کا کوئی بندہ فون اٹھا رہا تھا اور نہ ہی فہد عمرہ سروس والوں کا نمائندہ کسی طرح لائن پر آرہا تھا۔
۔۔ ۔۔۱۷؍فروری کو پھر LTU والوں اور فہد عمرہ سروس والوں سے رابطہ کی کوشش کی لیکن دونوں کوششیں بے سود ثابت ہوئیں۔
آخر جرمنی میں بڑے بیٹے شعیب اور بہو تسنیم کو فون کرکے اس مسئلہ سے آگاہ کیا اور انہیں تاکید کی کہ LTU والوں کو رِنگ کرکے ہماری سیٹ کی کنفرمیشن کرالیں۔آج مسجد نبوی کے بیرونی حصے میں دستیاب آبِ زم زم حاصل کیا۔باقی یہ دن بھی گزشتہ دن کی طرح ہی گزرا۔
۔۔۔۔ ۔۱۸؍فروری کو نمازِ فجر کے بعد واپسی پر ہی ناشتہ کیا۔ہوٹل میں آکر مبارکہ نے اپنی دوائیں لیں۔تھوڑ ا سا آرام کیا۔پھر ہم ہوٹل سے باہر نکل آئے۔مدینے کی گلیوں اور بازاروں میں گھومتے رہے۔اس دوران نماز وں کا وقت ہوتا تو مسجد نبوی میں جا کر نماز ادا کر لیتے اور پھر مارکیٹ میں جانکلتے۔عشاء کی نماز کے بعد ہوٹل میں آگئے۔سوا آٹھ بجے ہم نے ’’ہجرہ ریسیپشن اسٹیشن‘‘کے لئے ایک ٹیکسی لی۔وہاں جاتے ہی جدہ جانے والی بس میں جگہ مل گئی۔۱۰ بجے چلنے والی بس گیارہ بجے روانہ ہوئی اور اگلے روز یعنی ۱۹؍فروری کو صبح سات بجے ہم جدہ پہنچ گئے۔وہاں متعلقہ آفس سے اپنے گمشدہ سامان کے بارے میں پتہ کیا۔ایک عمارت میں بہت سے لوگوں کا گمشدہ سامان جمع کیا ہوا تھا۔ہمیں وہ ساری جگہیں دکھا دی گئیں۔لیکن ان میں ہمارا سامان کہیں بھی نہیں تھا۔مبارکہ کی طبیعت پھر مضمحل سی ہو گئی اور اس کی حالت دیکھ کرمجھے بوریت ہونے لگی۔یہ سارا دن جدہ ائر پورٹ پر ہی گزارنا تھا،اور اسی بوریت کے ساتھ ہی گزارنا پڑا۔رات ساڑھے آٹھ بجے ٹیلی فون کرکے ٹیپو کو اطلاع دی کہ ہم آج رات جرمنی کے لئے روانہ ہو رہے ہیں۔ساتھ ہی اسے تاکید کی کہ ہم دونوں کے اوور کوٹ ائر پورٹ پر لیتے آئیں۔شام سات بجے روانہ ہونے والا جہاز رات ایک بجے کے بعد ملا۔صبح(رات) دو بجے جہاز جرمنی کے لئے روانہ ہوا تو ۲۰ فروری کی تاریخ شروع ہو چکی تھی۔
۔۔۔ ۔۔جدہ ائر پورٹ پر ایک ایسا واقعہ دیکھنے میں آیا جس کا تکلیف دہ اثر آج بھی میرے ذہن میں موجود ہے۔ائرپورٹ پر مسافروں کے لئے کئی ہوٹل اور اسٹالز بنے ہوئے تھے۔ایک اسٹال پر کھانا فروخت ہو رہا تھا۔لوگ ویسے تو لائن میں لگے ہوئے تھے لیکن ساتھ ہی اضافی لائنیں بھی بن رہی تھیں اور کوئی نظم و ضبط نہیں تھا۔اس اسٹال پر ایک نہایت نفیس قسم کاافریقی نوجوان لمبی لائن کے باوجود بڑے تحمل کے ساتھ اپنی باری کا انتظار کر رہا تھا۔جب اس کی باری قریب آئی تب بھی اس کے آس پاس سے لوگ کھانا لئے جا رہے تھے اور وہ کاؤنٹر کے قریب پہنچ کر بھی لمبی لائن جیسی حالت میں تھا۔چنانچہ اس سے اتنی غلطی ہو گئی کہ اس نے اسٹال کے مالک کی طرف منہ کرکے لائن کی بے ترتیبی پر شستہ انگریزی میں اتنا کہہ دیا: ’’یہاں کوئی ڈسپلن نہیں ہے۔رسولِ اکرم ؐ کی تعلیمات پر عمل کرکے مغربی دنیا کتنی ترقی کر گئی اور عرب کے لوگ ویسے کے ویسے ہی رہ گئے۔‘‘۔
عرب دوکاندار کو اس بات کی اتنی غیرت آئی کہ جب افریقی اس کے بالکل سامنے پہنچ گیا اس نے کہہ دیا ’’کھانا ختم ہو گیا ہے‘‘۔حالانکہ ابھی بہت کھانا موجود تھا اور ہر ایک کو دکھائی دے رہا تھا۔یہ در اصل عرب دوکاندار کی طرف سے اس افریقی کو کھانا دینے سے انکار کرنے کا اعلان تھا۔تب اس افریقی نے کسی غصے کے بغیر اتنا کہا:
مجھے اس مقدس سرزمین کی قسم ہے کہ پھر کبھی اس زمین پر نہیں آؤں گا۔
اسے محض ایک واقعہ نہیں سمجھیں،حقیقتاََ یہ غیر عرب مسلمانوں کے تئیں عربوں کے جاہلانہ رویے کی ایک جھلک تھی۔مجھے اس ڈیسنٹ سے افریقی اور عرب دوکاندار کے چہروں اور دونوں کے کردار کا فرق آج بھی شدت سے محسوس ہوتا ہے۔اﷲ تعالیٰ عربوں کی حالتِ زار پر رحم کرے۔اور انہیں اپنے رویے ٹھیک کرنے کی توفیق دے۔
۔۔۔۔ ۔جدہ ائر پورٹ پر آتے ہوئے بھی افراتفری اور نفسا نفسی کا سماں دکھائی دیتا تھا اور اب جاتے ہوئے بھی وہی نفسا نفسی کا منظر تھا۔کوئی لائن،کوئی ترتیب ،کوئی تنظیم نہیں تھی۔دھکم پیل،مارپیٹ کے بعض مناظر بھی دیکھنے میں آرہے تھے۔لیکن جیسے ہی ہم فرینکفرٹ ائر پورٹ پر پہنچے وہی سارے کے سارے مسافر کسی مار دھاڑ کے بغیر،کسی دھکم پیل کے بغیر بڑے ہی سلیقے اور مہذب ترتیب کے ساتھ باہر جا رہے تھے۔کہیں معمولی سی بھی بد نظمی دیکھنے میں نہیں آ رہی تھی۔
۔ ۔۔۔یہاں تک وہ روداد لکھی گئی ہے جس کے میں نے نوٹس تیار کئے تھے۔اب ان کے علاوہ چند باتیں جو ذہن میں آرہی ہیں وہ یہاں کسی ترتیب کے بغیر بیان کر دیتا ہوں۔بس جیسے جیسے کوئی بات یاد آتی ہے لکھ دیتا ہوں۔
۔مکہ میں قیام کے دوران ہم نے زیادہ تر کھانا اسی سرائیکی ہوٹل سے کھایا یاپیک کرایا جہاں سے عمرہ والے دنوں(۱۹۹۶ء)میں کھانا کھاتے رہے تھے۔البتہ کبھی کبھار بہت زیادہ رش ہوجاتا تو کسی دوسرے ہوٹل سے بھی کھانا کھا لیتے۔شروع کے دو تین دن کے بعد ہم دونوں کے گلے خراب ہو گئے تھے اس لئے کھانا کھانے میں بھی تکلیف ہونے لگی تھی،لیکن کچھ نہ کچھ کھانا تو پڑتا تھا۔ہوٹل میں ہی بعض پاکستانی احباب کو دیکھا کہ کھانے کی ادائیگی کا حساب کرتے ہوئے انہیں خاصی پریشانی ہو رہی تھی۔ریال کے مقابلہ میں پاکستانی روپے کی حالتِ زار نے پاکستان سے آنے والوں کو زارونزار کر رکھا تھا۔یورو چونکہ ریال سے کہیں بہتر تھا اس لئے ہمیں کھانا بہت ہی سستا لگتا تھا۔
۔۔۔۔ مبارکہ کی زیر استعمال دواؤں کی اہمیت کی وجہ سے مکہ پہنچتے ہی بڑی بہو کو فون پر تاکید کر دی تھی کہ ان دواؤں کے جرمن ناموں کا انگریزی ترجمہ ڈاکٹر سے پوچھ کر ہمیں بتائیں ۔چنانچہ ایک ہی دن میں یہ مرحلہ طے ہو گیا۔مبارکہ کی دوائیں مکہ سے ہی خرید لیں اور بلڈ پریشر ماپنے کی ایک مشین بھی وہیں سے خرید لی۔تاکہ مبارکہ کے سلسلے میں کوئی بڑا مسئلہ نہ بنے۔مجھے دن میں دو بار شوگر کے مرض کی ایک دوا لینا ہوتی ہے۔مکہ کے میڈیکل سٹورز سے پتہ کیاتو اسی نام کی ٹیبلٹ موجود تھی لیکن وہ فرانس کی بنی ہوئی تھی۔خدا کا شکر ادا کیا اور وہ ٹیبلٹس خرید لیں۔لیکن دو تین گولیوں کے استعمال سے یہ ماجرا سامنے آیا کہ وہ گولی کھانے کے بعد مجھے شدید سردرد کی شکایت ہو جاتی۔میں نے گولی کا استعمال ترک کیا تو سر دردکی تکلیف رفع ہو گئی۔چنانچہ میں نے پھر بغیر دوا کے اور بغیر کسی غیر معمولی پرہیز کے ہی باقی ایام گزارے۔اس دوران ایک بار ایک میڈیکل سٹور سے اپنی شوگر چیک کرائی تو نارمل تھی۔دوسری بار جدہ ائر پورٹ پر جرمنی سے گئے ہوئے ایک دوست سید سعیداحمد صاحب سے ملاقات ہوئی، آپ انڈیا سے آکر جرمنی میں سیٹ ہوئے ہیں۔دورانِ گفتگو میری شوگر کے مسئلہ کاذکر ہوا تو انہوں نے اسی وقت اپنی مشین نکالی اور میری شوگر چیک کی۔میرے لئے انتہائی حیرت کی بات تھی کہ شوگر کا لیول بالکل نارمل تھا۔کھانے میں کسی غیر معمولی پرہیز کے بغیر اور معمول کی دواؤں کے بغیر ۱۷ دن تک شوگر کا نارمل رہنا خدا کا خاص فضل ہی تھا۔ویسے اس فضل کا ایک طبی جواز بھی اب سمجھ میں آتا ہے۔چاول ، نان اور مرغن غذاؤں کے کھانے سے شوگر لازماََبڑھتی تھی لیکن اس دوران پاؤں میں جو چکر سا تھا،جو کسی نہ کسی بہانے گردش میں رکھے ہوئے تھا،وہی اس کا علاج کرتا جاتا تھا۔خاص طور پر ۱۱ ؍فروری کو صبح ساڑھے آٹھ بجے سے لے کر سارا دن اور ساری رات اگلی صبح کے چار بجے تک جو مسلسل چلنا پڑا تھا اور جس کی وجہ سے خانۂ خدا میں بھی بلہے شاہ والا ’’تھیا تھیا ‘‘ہوتا رہاتھا تو در اصل یہ پاؤں کا چکر اضافی شوگر کا خصوصی علاج بھی کر رہا تھا۔
خانہ کعبہ کے طواف کے دوران بہت زیادہ بوڑھوں اور معذوروں کے لئے دو سہولتیں میسر تھیں۔وہیل چئیر کی سہولت سے استفادہ کرنے والوں کو اوپر کی منزلوں پر جانا ہوتا تھا جبکہ گراؤنڈ فلور پر اوپن ائر ڈولی کا انتظام تھا۔اس ڈولی کو چار قوی قسم کے افریقیوں نے اٹھایا ہوتا تھا۔اس اوپن ائر ڈولی پر بیٹھے ہوئے بوڑھے بزرگ سب سے زیادہ آرام سے طواف کر لیتے تھے۔مجھے ایک دو بار ایک بوڑھی سی،بہت ہی بوڑھی سی خاتون دکھائی دیں،بہت ہی سمٹی ہوئی سی،پتلی دبلی اور ارد گرد سے بے خبر، دونوں ہاتھ اٹھائے ہوئے،اور رُخ مسلسل کعبہ کی طرف کئے ہوئے مجھے وہ بہت ہی پیاری لگیں۔کبھی لگتا جیسے بوا حیات خاتوں بیٹھی ہوئی ہیں اور کبھی لگتا مبارکہ کی پڑنانی بیٹھی ہیں جنہیں سارا خاندان ’’وڈی بھابی‘‘(بڑی بھابی)کہا کرتا تھا۔میں نے اپنے بالکل ابتدائی بچپن میں انہیں دیکھا تھا ۔پتہ نہیں وہ پیاری سی بوڑھی خاتون کون تھیں۔ان کی دعا کا والہانہ انداز مجھے اتنا اچھا لگا کہ اپنے دو بھولے بسرے بزرگ یعنی بوا حیات خاتوں اور بڑی بھابی یاد آگئیں اور میں نے اسی بہانے سے ان دونوں کے لئے دعا کر لی۔
حج کے دوران یہ تکلیف دہ منظر دیکھنے میں آیا کہ پیشہ ور بھکاریوں کی ایک بڑی تعداد منظم طریقے سے نہ صرف سارے علاقے میں بلکہ حرم شریف میں صحنِ کعبہ تک پھیلی ہوئی تھی۔ان لوگوں میں بعض واقعتاََ معذور تھے اور بعض اپنی اداکارانہ صلاحیتوں کی بنا پر معذور بنے ہوئے تھے۔ ان کی یلغار ویسے تو ہر طرف تھی لیکن خواتین والے حصہ میں توجہ زیادہ تھی۔وجہ ظاہر ہے کہ خواتین کا دل جلدی پسیج جاتا ہے۔جس حصے میں کسی بھکاری کو زیادہ خیرات مل جاتی وہاں دوسرے بھکاریوں کی بھی یلغار ہو جاتی۔بعد میں پتہ چلا کہ ان میں سے بیشتر کے پاس موبائل ٹیلی فون تھے اور وہ ایک دوسرے سے براہِ راست رابطہ رکھتے تھے۔موبائل ٹیلی فون سے یاد آگیا کہ حرم شریف میں بیٹھے ہوئے بہت سے لوگ موبائل سے بھی استفادہ فرما رہے تھے۔بعض لوگوں کا طرزِ عمل نہ صرف ’’نو دولتیوں‘‘ کی طرح بہت زیادہ مضحکہ خیز تھا بلکہ خاصا تکلیف دہ بھی تھا۔ہم نے پہلے یا دوسرے دن جو خریداری کی اس میں ایک اٹیچی کیس بھی شامل تھا۔خریدنے کے بعد جب اسے دیکھا تو اس کے اندر سے مزیدتین اٹیچی کیس نکل آئے۔ ہم نے تو ایک کی قیمت طے کی تھی یہاں چار نکل آئے۔میں نے اسی وقت مبارکہ سے کہاہمارے دو اٹیچی کیس اور ایک بیگ غائب ہو ا ہے،تین چیزوں کے بدلے میں خدا نے چارچیزیں دیدی ہیں۔بے شک چاروں اٹیچی خالی تھے لیکن جب ہم سعودی عرب سے واپس ہوئے تو چاروں ہی تبرکات سے بھرے ہوئے تھے۔
میں نے شروع میں لکھا تھا کہ حج کے انتظامات کو بہتر بنانے کے لئے چند مشورے لکھوں گا۔حج کے دنوں میں جدہ ائر پورٹ کی بجائے خصوصی حج پروازوں والا ائر پورٹ کھولا جاتا ہے۔مسافرانِ کرام کی کثرت کے باوجود یہ مناسب حد تک وسیع و عریض ایریا ہے۔رضاکاروں،اہلکاروں کی ایک بڑی تعداد وہاں متعین ہے۔لیکن یہ سب کے سب عربی بولنے والے لوگوں کے علاوہ باقی سب کے لئے بے کار ہیں۔جدہ ائر پورٹ سے لے کر منیٰ کی سڑکوں تک متعین اہلکاروں کے ساتھ ان تمام ممالک کی زبان بولنے والوں کا تعین کرنا بیحد ضروری ہے جہاں سے لوگ کثرت سے حج پر آتے ہیں۔ مثلاََانڈونیشیا،پاکستان،بنگلہ دیش،انڈیا،ملائیشیا،ترکی،ایران،افغانستان جیسے ممالک اور متعدد دیگر ممالک کی زبانیں جاننے والوں کے رضاکار متعین کئے جانے چاہئیں۔یہ کوئی اتنا مشکل کام نہیں ہے۔صرف نیت ٹھیک ہونی چاہئے اور حجاج کی مشکلات دور کرنے کا جذبہ ہونا چاہئے۔تمام متعلقہ ممالک سے ایسے رضاکار بلامعاوضہ خدمات انجام دینے کے لئے تیار مل سکتے ہیں۔ انہیں حج سے پہلے خصوصی تربیت دے کر انفرادی طور پر آنے والے حجاج کی مشکلات دور کرنے کے لئے کار آمد بنایا جا سکتا ہے۔ اس کا فائدہ یہ ہو گا کہ لوگ محض عربی سے نا بلد ہونے کے باعث خوار نہیں ہوں گے۔ان کی پریشانی کو سمجھا بھی جا سکے گا اور اس کا حل بھی نکل سکے گا۔حج کو سچ مچ میں کمرشیلا ئز کر ہی دیا ہے تو تب بھی سعودی عرب کی حکومت کا فرض بنتا ہے کہ وہ لوگوں کے لئے پریشانیاں پیدا کرنے کی بجائے ان کی پریشانیاں کم کرنے کی کوشش کرے۔وگرنہ قدرے تاخیر سے سہی خدا کی ناراضگی کسی نہ کسی رنگ میں ظاہر ہو کر رہے گی۔اگر ابوجہل جیسے بد بخت لوگ بھی نیک نیتی کے ساتھ حجاج کی خدمت کیا کرتے تھے تو سعودی حکمرانوں کواپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے اتنا دیکھ لینا چاہئے کہ وہ حجاج کے لئے کیا کر رہے ہیں؟اور جہاں جہاں خامیاں ہیں انہیں دور کرنے کے لئے کیا اقدامات کئے جا سکتے ہیں؟
۔۔۔۔ ۔منیٰ میں رمی جمرات کے موقعہ پر ہر سال اموات ہوتی ہیں۔یہ اموات صرف اور صرف بد انتظامی کی وجہ سے ہوتی ہیں۔اس سلسلے میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ جہاں سے لوگ پتھر مارنے کے لئے آرہے ہوتے ہیں ان کی واپسی بھی وہیں سے ہوتی ہے۔اسی لئے آتے ہوئے ہجوم اور جاتے ہوئے ہجوم کے ٹکراؤ سے بھگدڑ مچتی ہے اور کمزور لوگ مارے جاتے ہیں۔اسی حج کے موقعہ پراور اسی رش کے عالم میں صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرتے وقت جو جگہ ہوتی ہے وہ منیٰ کے مقابلہ میں خاصی محدود جگہ ہوتی ہے لیکن چونکہ وہاں آنے اور جانے کے رستے بالکل الگ الگ بنے ہوئے ہیں ۔اسی لئے نہ وہاں کوئی بھگدڑ مچتی ہے نہ وہاں لوگوں کی اموات ہوتی ہیں۔ان دو مثالوں سے ہی مسئلے کا حل واضح ہوجاتا ہے۔یعنی رمی جمرات کے لئے آنے اور جانے کے بالکل الگ الگ رستے بنائے جانے چاہئیں۔یہ کوئی اتنابڑا مسئلہ نہیں ہو گا صرف نیت کرنے کی بات ہے اور کام شروع کردیا جائے تو اگلے حج سے پہلے سارا نظام سیٹ بھی کیا جا سکتا ہے۔اگر سعودی حکومت یہ کام کرنے کی اہلیت نہیں رکھتی تو پھرشیطان کو مارنے کے رستوں کا انتظام کسی جرمن کمپنی کو ٹھیکے پر دے دے۔اگر خانہ کعبہ سے سعودی حکومت کے بعض باغیوں کو نکالنے کے لئے مغربی ممالک کی افواج سے مدد لی جا سکتی ہے(جو سعودی حکومت کسی زمانے میں لے چکی ہے) تو شیطان والے حصے میں حاجیوں کے بچاؤ اور سہولت کے لئے بھی ایسی مدد لے لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
۔۔۔۔ ۔۔ گروپ کی صورت میں آنے والے حجاج کسی فوجی دستے کی طرح لگتے تھے۔انڈونیشیااور ملائیشیا کے گروپس تو دیکھنے میں بہت ہی پیارے لگتے تھے۔افغانیوں کے گروپ دیکھے تو دل میں ان کے لئے کوئی انجانا سا(یا شاید جانا سا)درد اٹھالیکن گروپ کے افراد چہروں سے سرخرودکھائی دے رہے تھے۔ ان کے سر بلند تھے اور چال دھمک پیدا کرنے والی تھی۔مختلف عربی گروپ بھی اچھے لگ رہے تھے۔ فلسطینیوں کے بارے میں معلوم ہوا کہ ان سب کو سعودی حکومت نے اپنے سرکاری خرچ پر پورا طیارہ چارٹر کرکے بلایا تھا اور ان کے قیام و طعام کا سارا خرچہ بھی حکومت کے ذمہ تھا۔یہ خبر اچھی لگی۔
۔۔۔۔۔ خانہ کعبہ کو اس بار پہلے دن دیکھا تھا تو اس کے اصل غلاف کے نیچے لگ بھگ دو میٹر چوڑی سفیدپٹی لگی ہوئی تھی۔۱۲؍فروری کو جب خانہ کعبہ کو دیکھا تو غلافِ کعبہ بدستور اصل مقام سے اونچا رکھا گیا تھا لیکن اس کے نیچے لگائی گئی اضافی سفید پٹی ہٹا دی گئی تھی۔اب نیچے سے کعبہ کی دیواروں کی اینٹیں دکھائی دے رہی تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔حج کرنے کے بعد حج اور عمرہ کے فرق کا اندازہ ہوا۔حج فرض ہے۔عمرہ کی حیثیت نوافل جیسی ہے۔ روحانی دنیا کے اہلِ نظر بخوبی جانتے ہیں کہ فرض نماز تو صرف فرض پورا کرنے والی بات ہوتی ہے،حکم بجا لانا ہوتا ہے۔محض فرض نمازیں پڑھنے سے قربِ خداوندی نہیں ملتا۔قربِ خداوندی کے لئے فرض سے آگے بڑھ کر نوافل کی منازل طے کرنا ہوتی ہیں۔یوں بھی فرض نمازکی باجماعت ادائیگی میں وہ روحانی لطف پیدا نہیں ہو پاتا جو اکیلے میں نوافل کی ادائیگی میں ملتا ہے ۔بس جیسے نمازوں میں فرض اور نوافل کا فرق ہے ویسے ہی حج اور عمرہ میں فرق ہے۔حج فرض ہے اور صاحبِ توفیق پر لازم ہے۔اس میں مشقت اور ریاضت کا پہلو نمایاں ہے۔عمرہ فرض نہیں ہے لیکن نوافل کی طرح اس کی لذت الگ ہے۔ابھی تک کے تجربوں سے تو یہی کچھ سمجھ میں آیا ہے۔زندگی رہی،مزید توفیق ملی اور اگلے تجربوں میں اس تاثر سے ہٹ کر کوئی نیا تاثر بنا تو ’’سوئے حجاز‘‘ کے کسی اگلے ایڈیشن میں اسے بیان کردوں گا۔ ورنہ ابھی تک کا جو بھی تاثر بنا ہے وہ بیان کر دیا ہے۔
خدا کا شکر ہے کہ اس نے مجھ گنہگار کو (میری اہلیہ سمیت)نہ صرف عمرہ کی لذت عطا کی بلکہ حج کا فریضہ ادا کرنے کی توفیق بھی بخش دی۔اسے قبول کرے نہ کرے اس کی مرضی ہے۔ہمیں توفیق ملی تو ہم نے گرتے پڑتے جیسے تیسے ممکن ہوا فرض کو ادا کرلیا۔
***

Keine Kommentare:

Kommentar veröffentlichen