Freitag, 15. Juli 2011

سوئے حجاز پر چند تاثرات

سوئے حجاز پر چند تاثرات


علامہ شارق جمال۔ناگ پور ،انڈیا
ان تمام مذکورہ زیارتوں کے حال کو ،سفر میں دیکھے ہوئے تمام محترم مقامات کو تفصیل سے حیدر قریشی صاحب نے قرطاس کے حوالے کیا ہے۔ساتھ ہی جگہ جگہ اپنے انداز میں ان پر تبصرہ بھی فرمایا ہے اور قرآن حکیم کے اپنے وسیع ترین مطالعے کو بھی سامنے رکھ کر متعلقہ آیتوں کو بھی ترجمے کے ساتھ پیش کیا ہے۔ساتھ ہی اپنے نظریات کو بھی بر سبیلِ تذکرہ بیان میں لے آیا گیا ہے۔
لیکن پھر بھی ان سے متعلق تحریر کیا ہے کہ:’’سوئے حجاز۔۔۔میں میرے نظریات اور تصوّرات جس انداز میں آئے ہیں،ان سے اتفاق کرنا قطعاََ ضروری نہیں ہے‘‘
یہ سفر نامہ ہر سفر حجاز کرنے والے کے لئے ایک رہبر کی حیثیت رکھتا ہے کہ اس میں تمام ضروری باتیں،ارکان،دعاؤں کے مقام جو عمرے سے متعلق ہیں احاطۂ تحریر میں آگئی ہیں۔کن ارکان کو کیسے ادا کرنا ہے؟کہاں کہاں نفل نمازیں پڑھنا ہے؟کہاں کہاں دعا مانگنا ہے؟کس طرح مانگنا ہے؟تفصیل کے ساتھ جنابِ حیدر قریشی نے تحریر فرما یا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اکبر حمیدی۔اسلام آباد،پاکستان
کچھ باتیں اس سفرنامے میں مجھے بہت نمایاں دکھائی دیں جن کا مختصر اظہار درج ذیل ہے:
1۔ یہ سفرنامے حیدر قریشی کے ظاہری ہی نہیں باطنی اور روحانی سفرنامے بھی ہیں۔
2۔ ان سفرناموں میں ان کیفیات کا والہانہ اظہار ہے جو اس دوران حیدرقریشی صاحب کو محسوس ہوتی رہیں۔
3۔ ان سفرناموں میں ان مقامات کے تاریخی پس منظر بھی بیان کیے گئے ہیں جو مصنف کے مشاہدے میں آئے یا جہاں جہاں سے وہ عمرہ اور حج کی ادائیگی کے دوران گزرتے رہے۔ یہ تاریخی پس منظر محض مذہبی نقطۂ نظر ہی نہیں رکھتے بلکہ تاریخی اور جغرافیائی حوالے بھی بنتے دکھائی دیتے ہیں جن کی اس لیے بھی خاص اہمیت ہے کہ جو لوگ مسلمان نہیں ہیں وہ بھی علمی سطح پر ان معلومات سے مستفید ہو سکتے ہیں۔ یوں یہ سفرنامہ محض مذہبی حیثیت ہی نہیں رکھتا جو ہمارے نزدیک نہایت قابلِ قدر ہے بلکہ ایک تاریخی اور علمی حیثیت بھی رکھتا ہے جو ان لوگوں کے لیے بھی ہے جو مذہبِ اسلام سے تعلق نہیں رکھتے جنہیں مذہب سے زیادہ دلچسپی نہیں ہے۔
4۔ اس سفرنامے میں ان مشکلات کا بھی ذکر ہے جو دورانِ حج یا عمرہ کے دوران حجاج کرام کو یا زائرین کو پیش آتی ہیں یا پیش آسکتی ہیں۔ اس سفرنامے کے ذریعے وہ ان متوقع مشکلات کی پیش بندی کا اہتمام بھی کر سکتے ہیں۔
5۔ اس سفرنامے میں مقامی انتظامیہ کی ان غفلتوں کا بھی ذکر ہے جن کے باعث زائرین کو مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ اس ضمن میں ان کمپنیوں کے رویّوں کا بھی ذکر ملتا ہے جنہیں دورانِ حج مختلف طرح کے کام تفویض کیے جاتے ہیں اس سفرنامے سے اندازہ ہوتا ہے کہ بعض کام خوش اسلوبی سے بھی سرانجام دیئے جاتے ہیں اور بعض غفلت کے باعث حجاج کرام کی مشکلات میں اضافے کا باعث بنتے ہیں۔
6۔ اس سفرنامے سے زائرین کورہنمائی بھی ملتی ہے کہ ایسا سفر آغاز کرنے سے قبل انہیں کن کن باتوں کو اورکن کن التزامات کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے۔ یوں یہ سفرنامہ ایک مخصوص افادیت کا حامل بن جاتا ہے جس کا مطالعہ زائرین کے لیے بیحد مفید ثابت ہو سکتا ہے۔
-7 ۔ تاریخی اعتبار سے یہ سفرنامہ معلومات کا خزانہ ہے جس کے گہرے مطالعے سے وہاں کے اہم مقامات کے بارے میں قیمتی تاریخی معلومات حاصل ہوتی ہیں۔
8۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان مقدس مقامات اور ماحول میں کیا کیا تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں ان سے بخوبی معلومات حاصل ہوتی ہیں۔ ان میں بعض تبدیلیاں تکلیف دہ بھی ہیں۔
9۔ یہ سفرنامہ ایک روحانی سیر ہے مگراسلوب اور ناقدانہ نظر ایک باشعور ادیب کے ہیں۔ یہ ادبی زبان میں لکھا ہوا روحانی سفر نامہ ہے جس میں وہاں کی انتظامی خامیوں پر تنقید بھی کی گئی ہے جو حجاج کرام کے لیے پریشانی کا باعث ہے۔
10۔ اس سفرنامے میں موضوعات کی رنگارنگی اور اندازِ بیان کا بہت لطف شامل ہیں۔
11۔ یہ سفرنامہ اپنے اندر جہاں تاریخی حقائق رکھتا ہے وہاں جذبوں کے ایسے مناظر بھی ملتے ہیں جو پڑھنے والے کواپنی رو میں بہالے جاتے ہیں اور پڑھنے والا محسوس کرنے لگتا ہے جیسے وہ خود بھی حیدر قریشی کے ساتھ اس مبارک سفر میں شریک ہے۔
12۔ یہ سفرنامہ اپنے صفحات کے لحاظ سے طویل نہیں مگر معنی،معلومات، کیفیات، تاریخی تعارفات اور پیش آمدہ مسائل و معاملات نیز مشاہدات کے باعث بہت بسیط ہے۔ دیوانِ غالبؔ کی طرح جو حجم میں قلیل ہے مگر معنی میں طویل۔
13۔ میری رائے میں حیدر قریشی کایہ سفرنامہ اردو میں لکھے ہوئے حج کے سفرناموں میں ایک بہت نمایاں اور ممتاز مقام کا حامل ہے اور سفرناموں کے ضمن میں ایک قیمتی اضافہ جو آئندہ چل کر بہت سے نقطہ ہائے نظر سے تاریخی حوالہ جات کا کام دے گا۔
14۔ یہ سفرنامہ بے شک بڑی عقیدت سے لکھا گیا ہے جس میں مصنف کے انتہائی والہانہ عقیدتی جذبات کا اظہار ہوتا ہے۔۔۔ مگر مصنّف بنیادی طور پر ادیب اورشاعر ہے۔ اس لیے اس نے یہ سفرنامہ کھلی آنکھوں سے اپنے ماحول کودیکھ کر ایک ادیب کے ذہن سے سوچ کر ایک شاعر کے قلم سے لکھا ہے۔ جسے پڑھ کر بار بار شاعرانہ شعور کا احساس ہوتا ہے۔ مصنف نے اپنی عقیدت کو اپنی ذات تک محدود رکھا ہے اور تاریخی واقعات اور مشاہدات کو قطعاً علمی اور فکری تجربات کے ساتھ قلم بند کیا ہے۔ یہ گویا قعرِدریا میں اتر کر دامن خشک رکھنے والی بات ہے جس کا حافظ نے ذکر کیا تھا۔
15۔ حیدر قریشی کا سفر نامہ ’’سوئے حجاز‘‘ پڑھتے ہوئے اس موضوع کا کوئی بھی سفرنامہ یاد نہیں آتا۔ اس کی وجہ حیدر قریشی کا منفرد اندازِ فکر اور منفرد اسلوبِ تحریر ہے۔ حیدر قریشی کا یہ امتیاز بہت نمایاں ہے کہ وہ قاری کی تمام تر توجہ اپنی جانب اس طور باندھ رکھتا ہے کہ پڑھنے والے کو کہیں اِدھر اُدھر کی نہ تو فرصت ملتی ہے اور نہ ہی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ وہ حیدر قریشی کے تخلیقی سحر میں سر تا پا شرابور ہوتا چلا جاتا ہے۔
مَیں اپنے عزیز دوست کواس شاہکار سفرنامے پر مبارکباد دیتا ہوں۔**
اکبر حمیدی کے مضمون حیدر قریشی سوئے حجاز کا ایک حصہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
افتخار امام صدیقی۔ممبئی،انڈیا
سوئے حجاز میرے لئے ایک انمول تحفہ ہے۔یوں لگاگویا میں آپ دونوں کے ساتھ سفر کر رہا ہوں۔مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کے سارے متبرک مناظر اور شب و روز مجھے یاد آئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر نذر خلیق۔اسلام آباد،پاکستان
سوئے حجاز کی فکری اور ادبی سطح کے علاوہ بھی اورکئی سطحیں ہیں جن کا اس مختصر مضمون میں احاطہ کرنا مشکل ہے تاہم یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ حیدر قریشی کا یہ سفرنامہ عصر حاضر کے بیشتر سفرناموں میں منفرد مقام رکھتا ہے حیدر قریشی اپنی دیگر تخلیقات کی طرح اس سفر نامہ میں بھی اپنے تخلیقی جوہر دکھانے میں کامیاب ہوئے ہیں اور یہ بات طے ہو چکی ہے کہ حیدر قریشی عصرِ حاضر کے چند منفرد اور پہلی صف کے تخلیق کار ہیں اور ان کے لیے کسی بھی صنفِ ادب میں لکھنا کوئی مشکل بات نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مولانا مفتی خالد محمود ۔کراچی،پاکستان
Your SAFARNAMA is very useful and valuable.I read in 1 sitting.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یونس خان۔سرگودھا،پاکستان
پارسل کی ڈوری کیا کھولی کہ محبت کی دوری سے بندھ گیا۔سوئے حجاز فوراََ پڑھنا شروع کی۔دو نشستوں میں عمرے کا سفر نامہ ختم کیا ایک افطاری سے پہلے اور دوسری افطاری کے بعد۔آج حج کا سفر نامہ پڑھ کے ختم کیا ہے اور نیٹ پر آگیا ہوں۔سارا سفر نامہ دردمندی اور عقیدت سے لکھا گیا ہے۔بلا وجہ کسی کو جذباتی نہیں کیا۔بات سادگی سے کہہ دی ہے۔سفر نامے کو انتہائی مختصر رکھا گیا ہے،شاید یہی اس کی خوبصورتی بھی ہے کہ بات کو زیادہ پھیلایا نہیں گیا۔ایک بات زیادہ خوبصورت لگی کہ سفر نامہ ہَیٹرس ہائم سے شروع ہوتا ہے،پاکستان سے نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منزہ یاسمین۔بھاولپور،پاکستان
سفرنامہ ’’سوئے حجاز‘‘ جہاں حیدر قریشی کے احساسات اور خیالات کی بہترین ترجمانی کرتاہے ، وہاں اپنے قارئین کے لیے نہایت اہم تاریخی اور مذہبی معلومات کا خزینہ بھی ہے۔۔۔۔۔۔
حیدر قریشی نے اپنے سفرنامہ ’’سوئے حجاز‘‘ میں جگہ جگہ مختلف پیغمبروں اور نبیوں کے فرمودات، واقعات اور قرآنی حوالے پیش کیے ہیں ، جن سے اُن کے وسیع دینی علم کا پتا چلتاہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ارشد حسین۔حیدرآباد،انڈیا
سوئے حجاز سفر نامہ نظر نواز ہوا۔دل میں زیارتِ کعبہ کی زبردست خواہش پیدا ہوئی ہے۔

Keine Kommentare:

Kommentar veröffentlichen