Donnerstag, 14. Juli 2011

مکّہ کے تاریخی اور مقدّ س مقامات

مکّہ کے تاریخی اور مقدّ س مقامات


۶؍دسمبرکوہمیں مکہ شریف پہنچے چوتھا دن ہورہاتھا سوگردونواح کے تاریخی اور مقدس مقامات دیکھنے کاپروگرام بنا۔ صبح ۶بج کر ۲۵منٹ پر ہم روانہ ہوئے اور سوانو بجے تک لوٹ آئے۔ ایک پاکستانی ٹیکسی ڈرائیور نے یہ سارے مقامات دکھائے اور بہترین گائیڈ ثابت ہوا۔ہمارے ہوٹل سے قریب ترین مقام ’’شبیقہ‘‘ تھا۔ یہ وہ خوفناک قبرستان ہے جہاں زمانۂ جاہلیت میں کفّارمکہ اپنے گھر میں بیٹی پیداہونے پر ’’غیرت‘‘ کا مظاہرہ کرتے تھے۔ بیٹی کو یہیں لاکر زندہ گاڑدیاکرتے تھے۔ انسان اپنی جہالت کے باعث ’’غیرت‘‘ کے نام پر کیسے کیسے ظلم ڈھاتارہا ہے اور آج بھی دوسرے حوالوں سے یہی جہالت ’’غیرتوں‘‘ کے کیسے کیسے غیر انسانی مظالم کوفخریہ طورپر روارکھ رہی ہے۔ ویسے اُس زمانے میں سارے قبیلے ایسا نہیں کرتے تھے۔ بعض قبیلے ہی جھوٹی غیرت کے نام پر اس انسانیت سوز ظلم کے مرتکب ہوتے تھے۔ اس وقت اچانک مجھے ایسے لگاہے جیسے اُن سفاک لوگوں سے میری بھی کوئی دور کی، پرانی رشتہ داری ہے۔ شاید اسی لئے مجھ سے ایسا شعر ہواہے:
اس کی چیخوں کی صدا آج بھی آتی ہے مجھے
میں   نے  زندہ   ہی   تری  یاد  کو   دفنایا  تھا
۔۔۔۔۔۔شبیقہ سے تھوڑا آگے گئے تو’’ جنت المعلیٰ‘‘ آگئی۔یہ جگہ دیکھ کر ایسا لگاجیسے کوئی مفلوک الحال جنت بی بی بیوہ بھی ہوگئی ہو۔ قبرپرستی سے خوف بھی کیاکیاگل کھلادیتاہے۔ سعودی خاندان نے امّت مسلمہ کو ’’مشرکانہ‘‘ رسومات سے بچانے کے لئے پورے قبرستان پر بلڈوزر چلوادیاہے۔ یہاں اب قبرستان نہیں بلکہ’’ رڑامیدان‘‘ ہے۔ حضرت خدیجۃ الکبریٰ ؓ ،حضرت عبدالمطلبؓ، حضرت ابوطالبؓ، حضوراکرم ﷺکے تین صاحبزادگان حضرت قاسمؓ، حضرت طاہرؓ اور حضرت طیبؓ (چوتھے فرزند حضرت ابراہیمؓ مدینہ میں جنت البقیع میں مدفون ہیں) اور متعدد صحابۂ کرامؓ اس قبرستان میں مدفون ہیں۔ جنت البقیع کے بعد یہ قبرستان دنیابھر کے قبرستانوں سے افضل سمجھاجاتاہے لیکن یہاں آپ کسی مزار کی نشاندہی نہیں کرسکتے۔ کوئی پتہ نہیں کہ کون کہاں مدفون ہے۔ اگر قبر کا کچی مٹی کا تعویذ بھی نہیں رہنے دینا تو پھرقبرپرستی سے اتنے ڈرنے والے ’’موحدین‘‘ کو تدفین کی ضرورت ہی کیاہے۔ سیدھا سیدھا رام نام ست ہے، بولو.... اور شمشان گھاٹ لے چلو۔ نہ رہے کوئی قبر اور نہ رہے قبرپرستی کا خوف۔ پکے موحد بن جائیے۔(استغفراللہ)
۔۔۔ ۔۔۔جنت المعلّیٰ کے کھلے میدان میں(اسے قبرستان کی جگہ اب میدان ہی کہناچاہیے) میں نے کھڑے ہوکرسارے بزرگوں کے لئے دعاکی اور باہر نکل آیا۔ یہاں خواتین کو اندر جانے کی اجازت نہیں ہے۔صرف طوافِ کعبہ اور سعی کے دوران عورتیں اور مردیک جاہوتے ہیں۔ تب روحانیت کے ساتھ انسانیت بھی معراج پر ہوتی ہے۔ کوئی فرقِ من و تو نہیں ہوتا۔ لیکن جیسے ہی نماز کی اذان ہوتی ہے پُلسئے خواتین کو الگ سائڈ پر ہانکنا شروع کردیتے ہیں۔ میں قبرستان سے باہر آیا تو مبارکہ مغموم سی کھڑی تھی۔ میں نے اسے دلاسہ دیااور بتایاکہ میں اندرکاحال دیکھ کرزیادہ مغموم ہوا ہوں... جنت المعلّیٰ کے بعد ہم مسجد جن کے سامنے گئے۔ روایت ہے کہ جن صاحبان حضورؐ سے اس مقام پر ملے تھے اور ایمان لائے تھے۔ یہ مسجد صرف نماز کے معین اوقات میں کھلتی ہے پھر بند کردی جاتی ہے۔ ہوسکتاہے بعض زائرین یہاں آکر بھی ’’مشرکانہ‘‘ حرکات کرتے ہوں جو جِنّوں کو اچھی نہ لگتی ہوں۔ مسجد جن سے تھوڑا آگے مسجد شجر ہے۔ یہاں ایک درخت تھا۔ آنحضرت ﷺجب غارِ حرا تشریف لے جایاکرتے تھے تو آتے اورجاتے ہوئے اس درخت کے نیچے آرام فرمایا کرتے تھے۔ حضرت عمرؓ نے مشرکانہ رسومات کے ڈرسے وہ درخت کٹواکروہاں مسجد بنوادی۔ اب اس مسجد کو مسجد عمرفاروقؓ کہتے ہیں۔ مسجد عمرکے نزدیک ہی مسجد الرایۃ ہے۔ اسے مسجد الفتح بھی کہتے ہیں۔ فتح مکہ کے موقعہ پر حضورؐ نے یہاں اسلام کی فتح کاپرچم لہرایاتھا۔ اسی جگہ کعبہ کامتولی رہتا تھا۔ کعبہ کی چابی اس کے پاس ہوتی تھی۔ اس سے چابی لے کر حضورؐ نے خانہ کعبہ کے اندر رکھے ہوئے ۳۶۰بت توڑے تھے اور کعبہ کی دیواروں سے لگی ہوئی تصویریں بھی پھاڑدی تھیں۔ بت توڑنے اور تصویریں پھاڑنے کے بعد حضورؐ نے خانہ کعبہ کی چابی پھر اسی متولی خاندان کے سپرد کردی تھی۔ سعودی خاندان کے آنے کے بعد کیا صورتحال ہے؟ مجھے اس کا علم نہیں ہے۔ تاہم خانہ کعبہ کی چابی آج بھی مسجد الفتح ہی میں محفوظ ہوتی ہے۔ خانہ کعبہ میں موجود ۳۶۰بتوں کو توڑنے کے تاریخی واقعہ کے ساتھ ہی مجھے ہندوستان کے بی جے پی کے ایک لیڈرکابیان یادآگیا۔ بابری مسجد کی شہادت کے ساتھ ہی جامع مسجد دہلی اور بعض دیگر مساجد کے بارے میں بھی اشتعال انگیز بیان داغے گئے تھے۔ جس نے جلتی پر تیل کاکام کیا۔ جب مسلم لیڈروں نے دکھ اور غصے کی حالت میں شدید رد عمل ظاہرکیاتب طاقت کے نشے میں بی جے پی کے ایک لیڈرنے یہاں تک کہہ دیاکہ آپ ہندوستان کی مسجدوں کے معاملے پر شورکررہے ہیں، ہمیں تو مکہ میں اپنا بڑا مندربھی لیناہے جہاں آپ نے ہمارے سارے بُت توڑ کر زبردستی قبضہ کرلیاتھا۔ لیکن اس بیان کے ساتھ ہی ایسا طوفانی ردِّعمل سامنے آیاتھاکہ بی جے پی کے لیڈرگھبراگئے۔ ان کی ہائی کمان نے فوراً اس بیان سے لاتعلقی کرکے اور معذرت خواہانہ وضاحت کرکے اپنی جان چھڑائی۔
۔۔۔۔۔ ۔اسلام جہاں بت پرستی کے خلاف ہے وہیں تصویر کی بھی ممانعت کرتاہے۔ شروع شروع میں فوٹوگرافی کے لئے مذہبی رہنماؤں نے مجبوری کے تحت جائز کافتویٰ دیا اور پھر شخصیت پرستی کے رویّے کو پوری طرح فروغ دیا۔ بعض ’’موحد‘‘ فرقوں کے گھروں میں جاکر دیکھیں تو پتہ چلتاہے کہ ہندؤں کے گھروں میں کرشن جی اور رام جی کی مورتیاں اتنے اہتمام سے نہیں سجی ہوں گی جتنے اہتمام سے ان ’’موحد‘‘ فرقوں کے رہنماؤں کی تصویریں سجی ہوئی ہیں۔ پھر بعض ’’موحد‘‘ قسم کی حکومتوں نے سرکاری کرنسی نوٹوں پر اپنی شاہانہ تصویریں طمطراق سے چھپوارکھی ہیں۔ بس جہاں جی چاہے بت پرستی اور تصویر پرستی کی مذمّت کردیجئے اور جہاں جی چاہے اپنی نمائش پسند نفسانی خواہشات کی تکمیل کے لئے جواز پیدا کرلیجئے۔

براہیمی  نظر   پیدا   مگر  مشکل   سے    ہوتی   ہے
ہوس چھپ چھپ کے سینے میں بنا لیتی ہے تصویریں
۔۔۔۔ ۔مسجد الفتح کے بعد ہم نے مسجد علیؓ دیکھی۔حضرت علیؓ اکثر عشاء کی نماز یہاں پڑھایاکرتے تھے اسی مناسبت سے اس کانام مسجد علیؓ ہے۔ کافی خوبصورت مسجد ہے۔ یہاں سے ہم حرم شریف کی دوسری سمت میں آنکلے۔ جبل الابوقبیس کے ایریا میں بہت سارے اسلامی تاریخی مقامات تھے مثلاً حضور اکرم ﷺکا مقام پیدائش، حضرت ابوبکر صدیقؓ کا مکان، حضرت حسّان بن ثابتؓ، حضرت عبداللہ بن زبیرؓ اور متعدد دیگر صحابہ کرام کے مکانات.... شعبِ ابی طالب جہاں مسلمانوں کو تین سال کے لگ بھگ کفارمکّہ کی ’’نفرت انگیز دینی غیرت‘‘ کا نشانہ بن کر محصورہوناپڑاتھا۔ کفار مکہ نے مسلمانوں کا انتہائی سخت سوشل بائیکاٹ کیاتھا... یہ سارے مقامات ضائع کردیئے گئے ہیں۔ ایک طرف ’’مکتبہ مکۃ المکرّمہ‘‘ کے نام سے کتب خانہ بنادیاگیاہے۔ دوسری طرف شاہی خاندان کے محلّات میں بعض مقام غائب ہوگئے ہیں۔ شاہی خاندان کے محلّات کے سلسلے میں تو کوہ صفا کابہت سارا حصہ بھی لے لیاگیاہے۔ سعی کرنے والوں کے لئے تھوڑی سی کوہ صفا کی نشانی چھوڑ دی گئی ہے جو ظاہر ہے شاہی خاندان کی خاص مہربانی ہے۔جبل الابوقبیس کے بارے میں دوروایتیں مشہور ہیں۔ ایک یہ کہ حضورؒ نے یہیں سے چاند کودوٹکڑے کرنے کا معجزہ دکھایاتھا۔ دوسری یہ کہ زمین کو متوازن رکھنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے پہلا پہاڑ یہی بنایاتھا، نیز حجراسود اسی پہاڑ سے لیاگیاتھا۔ شق القمر والے مقام پر اب ایک مسجد ہے اسے مسجد بلال کہاجاتاہے۔
۔۔۔۔ ۔جبل ابوقبیس کے بعد ہم مکہ مکرمہ سے تھوڑاباہرجبل ثور کی طرف گئے۔ اس پہاڑ کی چوٹی پر غارِ ثور ہے۔ یہ وہی غار ہے جہاں آنحضرت ﷺ نے ہجرتِ مدینہ کے دوران تین راتیں قیام فرمایاتھا۔کفارمکہ آپؐ کی تلاش میں تھے۔ اس سفر ہجرت میں حضرت ابوبکر صدیقؓ بھی حضورؐ کے ہمراہ تھے یوں ’’یارِ غار‘‘ کا اعزازان کا نصیب ہوگیا... غارثور خاصی دورتھا۔میں پہاڑ کی چڑھائی چڑھ کر چوٹی تک جاناچاہتاتھامگر مبارکہ کی حالت کا خیال کرکے اپنی یہ خواہش چھوڑدی۔ یوں بھی غارِ ثور تک پہنچنے کے لئے اور پھر واپس آنے کے لئے پورے ایک دن کا پروگرام بنانا ضروری ہے۔یا پھر دشمنوں کاکوئی گروہ پیچھے لگاہوتو چڑھائی آسان ہوسکتی تھی... لیکن میرے اندرکے صحرامیں کہیں، کسی طرف میرے اپنے ہی اندرکے کافروں اور دشمنوں کاایک گروہ بھی تو میرے پیچھے لگاہواہے اور مجھے ابھی تک اپنی ذات کے غارثورتک پہنچنا نصیب نہیں ہوسکا۔شاید میں ابھی تک اپنی ذات میں شعبِ ابی طالب کے مرحلے سے گذر رہاہوں....آنحضرت ﷺ جب اس غار میں قیام فرماتھے تب غارکے دہانے تک پہنچ کررک جانے والے کھوجیوں نے دعوے سے کہہ دیاتھاکہ یاتو آپؐ اسی غار کے اندر ہیںیا آسمان پر چلے گئے ہیں۔غار کے اندر موجودگی اس لیے ماننے میں نہیں آتی تھی کہ غار کے دہانے پر مکڑی نے جالا بُن دیاتھا۔ چنانچہ پھر بعض لوگوں نے رائے ظاہر کی کہ چونکہ حضورؐ ایک بارپہلے بھی طائف جاچکے ہیں اس لئے ممکن ہے اب پھر طائف چلے گئے ہوں کیونکہ جبل ثور کے دوسری طرف اترجائیں تو وہاں سے لگ بھگ ۱۰۰ کلومیٹر کے فاصلے پر طائف شہر ہے۔
۔۔۔۔ ۔جبل ثورکودورسے دیکھنے کے بعد ہم میدان عرفات کی طرف نکل گئے۔ ۹؍ذی الحج کو حاجی صاحبان یہاں پہنچتے ہیں۔ وقوفِ عرفات حج کا رکن اعظم ہے۔ یہاں قیام کرکے دن بھر دعائیں کی جاتی ہیں۔ ہمارا ٹیکسی ڈرائیور بتارہاتھاکہ روزِ حشر کو ساری دنیایہیں جمع ہوگی۔ مجھے پہلے تو اس کی بات پر ہنسی آئی کہ صرف اسی زمانے کے پانچ ارب انسان بھی اس میدان میں سمانہیں سکتے تو سارے گذرے اور آنے والے زمانوں کے کھربوں انسان کہاں سمائیں گے۔ لیکن پھر یادآیاکہ جدید سائنس نے تسلیم کیاہے کہ اگر مادہ میں سے خلانکال دیاجائے تو ساری کائنات کا مادہ چمچ بھر ہوگا۔مادہ اتنا محدود ہوسکتاہے تو روح تو ویسے ہی لطیف ہے۔سوضروری نہیں ہے کہ مذہبی عقائد کی حکمت ہم ایک دم ہی سمجھ جائیں۔ جہاں کچھ کچھ سمجھ جاتے ہیں، ہماری تسلی ہوجاتی ہے۔ جہاں بات پلّے نہیں پڑتی وہاں ٹامک ٹوئیاں مارتے رہ جاتے ہیں اور انہیں اپنی دانشوری سمجھ کر خوش ہولیتے ہیں لیکن اس کے سواچارہ بھی تونہیں ہے... عرفات میں مسجدنمرہ کی خاص اہمیت ہے۔ اسے صرف حج والے دن کھولاجاتاہے۔ آنحضرت ﷺ نے اسی مقام پر وہ تاریخی خطبہ ارشاد فرمایاتھاجسے خطبہ حجۃ الوداع کہاجاتاہے اور جس کی روح پر نیک نیتی سے عمل درآمد کی صورت میں آج بھی پوری انسانیت کے دکھوں کا مداواکیاجاسکتاہے۔ اس مسجد کے بند دروازے کے سامنے قبلہ رو ہوکر میں نے اور مبارکہ نے شکرانے کے نفل پڑھے۔ یہاں سے ہم جبل الرحمت کی طرف آئے۔ یہ ایک چھوٹا سا پہاڑ ہے جسے ہم نے آسانی سے سرکرلیا۔ روایت کے مطابق حضرت آدم علیہ السلام جنت سے نکالے جانے کے بعد عرصہ تک توبہ کرتے رہے۔ اس مقام پر رحمت خداوندی نے ان کی توبہ قبول فرمائی اس لیے اسے جبل الرحمت کہتے ہیں۔ یہاں ایک چھوٹا سا ستون یادگار کے طورپربناہواہے۔ آنحضرت ﷺ بھی اس مقام پر تشریف لے گئے تھے اور وہاں جاکرکھڑے رہے تھے اس لئے وہاں جاناتو سنّتِ رسولؐ کی پیروی کے زمرہ میں بھی آجاتاہے۔ اس کے باوجود پہاڑ کے رستے کے شروع میں ایک بڑا سابورڈ نصب کردیاگیاہے جس میں اس جگہ کو صرف ایک تاریخی مقام قراردے کر یہاں دعاکرنے سے بھی روکاگیاہے۔ چلیں یہ صرف ایک تاریخی مقام ہی سہی۔ لیکن وہاں دعاکرنے میں کیا قباحت ہے؟کیا وہاں جاکر خداسے دعاکی تو اس میں بھی شرک ہوجائے گا؟ میں نے اور مبارکہ نے یہاں کھڑے ہوکر دعاکی۔ میں نے تواپنے اب تک کے گناہوں کے علاوہ آئندہ ہونے والے گناہوں کی بھی ایڈوانس میں معافی مانگ لی۔
۔۔۔ ۔ ۔عرفات سے مزدلفہ کی طرف جاتے ہوئے ایک دیوار سی دکھائی دی۔ استفسار پر پتہ چلاکہ خلیفہ ہارون الرشید کی ملکہ زبیدہ نے جو تاریخی نہر بنوائی تھی، یہ وہی ہے۔ اُس زمانے میں دجلہ و فرات سے یہاں مکہ تک حاجیوں کے لئے اور مسافروں کے لئے اتنی شاندار نہر بنوادینا بہت بڑی بات تھی۔ مزدلفہ کے قریب مسجد مشعر الحرام ہے، یہ مسجد صرف حج والی رات کھلتی ہے۔ اس کے دروازے کے آگے بھی ہم دونوں نے نفل پڑھے۔ یہاں سے آگے بڑھے تو واد ئ محسّراور جبل الابابیل نظر آئے۔ جبل الابابیل وہ پہاڑ ہے جہاں سے ابابیلوں نے کنکر اٹھائے تھے اور خانہ کعبہ پر حملہ کرنے کے لئے آنے والے یمن کے بادشاہ کے، ہاتھیوں پر سوار عظیم لشکرکو تہس نہس کرکے رکھ دیاتھا۔ یمن کا بادشاہ ابرہہ مسیحی تھا۔ اس نے خانہ کعبہ سے لوگوں کی توجہ ہٹانے کے لئے صنعاء میں ایک عالی شان گرجاتعمیر کرایاتھا۔ لیکن جب اس کی شان و شوکت دیکھ کر بھی لوگ ادھر متوجہ نہیں ہوئے تو وہ خانہ کعبہ ہی کو مٹانے کے لئے چڑھ دوڑا۔ ربِّ کعبہ نے نہ صرف اپنے گھر کی عظمت کو قائم رکھابلکہ اس پر حملہ کرنے والوں کو معمولی ابابیلوں کے ذریعے برباد کرادیا۔ خانہ کعبہ کی روحانی عظمت اور شان و شوکت کا یہ عالم ہے کہ سوائے فرض نماز باجماعت کی ادائیگی کے چند منٹوں کے، دن رات اس کے گرد عشّاق کا طواف جاری رہتاہے۔ نہ اس تسلسل میں کبھی کوئی تعطل پیداہوتاہے اور نہ ہی عشّاق کی تعداد میں کمی ہوتی ہے۔سودنیاکا کوئی بھی دوسرا مقدس مقام خانہ کعبہ کی اس فضیلت کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ ہجومِ خلق کے لحاظ سے بھی اور فیوض و برکات کے لحاظ سے بھی صرف ارضِ حرم ہی ارضِ حرم ہے۔
۔۔۔۔۔۔وادئ محسّر،جبل الابابیل کے دامن میں ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں یمن کابادشاہ ابرہہ اپنے ہاتھی سمیت ہلاک ہوگیاتھااور اس کاسارا لشکر بھی بربادہوگیاتھا۔اس جگہ کے بارے میں حضوراکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ یہاں خداکابہت بڑا عذاب نازل ہواتھا اس لیے یہاں سے تیزی کے ساتھ گذرجاناچاہیے۔ چنانچہ ہمارے ٹیکسی ڈرائیورنے بھی ٹیکسی کی رفتارکوتیزکیا اور ہم جلد ہی اس وادی سے آگے نکل گئے.... اس علاقہ میں ہم نے دور سے پیلے رنگ کاایک چھوٹاسا ستون سادیکھا۔ پتہ چلایہ وہ مقام ہے جہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو قربان کرنے کے لئے لٹایاتھا۔ غالباً اسی جگہ مسجد الکبش ہے۔ لیکن اُس طرف جانے کی اجازت نہیں تھی بلکہ اس طرف ہاتھ اٹھاکر اشارہ کرنے میں خطرہ تھا۔ دراصل وہیں ساتھ ہی ایک شاہی محل بنالیاگیاہے اس لئے عوام کا داخلہ اس علاقے میں بھی ممنوع ہوگیاہے۔ حفاظتی اقدامات کے طورپر بے حد طاقتورا ور حسّاس کیمرے نصب کئے گئے ہیں یوں اُس طرف ہماری انگلی کا اشارہ بھی ہمیں مشکوک بناسکتاتھا۔ سو چُپ چاپ اس مقام سے آگے نکل گئے۔ تھوڑاساآگے جانے کے بعد مسجد خیف آگئی۔ یہ منیٰ کی بڑی مسجد ہے۔ حج کے چاردنوں میں اسے کھولاجاتاہے۔ایک معروف روایت کے مطابق یہاں ستّر ہزار پیغمبرانِ خدامدفون ہیں۔ میں نے اور مبارکہ نے یہاں بھی مسجد کے بند دروازے کے آگے قبلہ رو ہوکر دو دو نفل شکرانے کے اداکئے۔
۔۔۔۔۔ ۔یہاں سے نکل کر ہم سیدھے منیٰ پہنچے جہاں حج کے دنوں میں شیطان کو کنکر مارے جاتے ہیں۔ پتھر کے تین بڑے بڑے ستون تھوڑے تھوڑے فاصلے پر نصب تھے۔ سائز کے لحاظ سے بھی اور عقیدے کے لحاظ سے بھی ایک بڑا شیطان ہے۔ ایک درمیانہ۔ اور ایک چھوٹا.... درمیانے شیطان کی ان دنوں Repairingہورہی تھی...شیطان کیRepairing.... بے اختیارمیرے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔پتھر تو صرف علامت ہیں، چاہے خیرکی قوّت کی علامت ہوں یا شر کی قوت کی... اصل خیر اور شر تو ہمارے اپنے اندرہوتاہے۔ شیطان بے چارہ مفت میں بدنام ہوگیاہے۔ہم جو بھی گناہ کرلیں اسی کے سرمنڈھ کرخود بری الذمہ ہوجاتے ہیں۔بس جی شیطان نے بہکا دیا تھا۔۔۔۔۔حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ہم نے خود اپنے اندر کئی چھوٹے بڑے شیطان بنارکھے ہیں۔ ان میں سے کوئی کبھی کمزور ہونے لگے تو ہم خود ہی اس کی Repairingکرنے لگ جاتے ہیں.... ۔۔۔۔۔
میں نے منیٰ میں بڑے شیطان کودیکھتے ہوئے خیال ہی خیال میں اسے کنکریاں ماردیں اور خیال ہی خیال میں دیکھاکہ وہی کنکریاں پلٹ کر مجھے آن لگی ہیں۔ شیطان اس تماشے پر مسکرارہاہے اور میں سوچنے لگتاہوں کہ ہم آج کے انسان۔ روایتی شیطان سے کتنا آگے نکل گئے ہیں۔ اگلے زمانوں میں کسی پر تکبرکا بھوت یا شیطان سوار ہوتاتو وہ براہ راست خدائی کا دعویٰ کردیتاتھالیکن آج کا متکبر انسان چالاک ہے کہ خدائی کا دعویٰ کرنے کی بجائے خداکو اپنی مذموم نفسانی خواہشات کی تکمیل کے لئے ایک ذریعہ اور بہانہ بنابیٹھاہے۔ اپنی انسانی حالت میں ریاکاری کی عاجزی بھی دکھائی اور خدائی کے سارے اختیارات بھی سنبھال لئے۔ یہی تو وہ ذہانت ہے جو نہ فرعون اور نمرود جیسے لوگوں کو نصیب ہوئی نہ شیطان کوہی سوجھ پائی۔
۔۔۔۔۔ شیطان سے فارغ ہوئے تو ایک جگہ رُک کر مسجد الکوثر دیکھی۔ یہاں آنحضرت ﷺ پر سورۃ کوثر نازل ہوئی تھی۔ حضرت ابوذر غفاریؓ اور حضرت ابوایوب انصاریؓ نے یہیں اسلام قبول کیاتھا۔ یہاں بہت ہی چھوٹی سی مسجد ہے وہ بھی چھت کے بغیر.... مسجد الکوثر سے ہم سیدھے جبل نورکی طرف گئے۔ غار حرااسی پہاڑ پر ہے۔ یہاں بھی چڑھائی کامعاملہ غارثورجیسا تھا۔ جبل الرحمت کی طرح یہاں بھی سعودی حکومت نے ایک بورڈ لگارکھاتھاکہ غارِ حراصرف ایک تاریخی مقام ہے۔ اس کی کوئی مقدس اہمیت نہیں ہے۔قرآن یا حدیث سے اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتاو غیرہ وغیرہ۔ مطلب وہی ’’موحدانہ‘‘ تھاکہ شرک سے اجتناب کریں۔ جس غار میں آنحضرت ﷺ ایک لمبے عرصے تک عبادت وریاضت میں مشغول رہے، جہاں قرآن پاک کی پہلی وحی نازل ہوئی۔ اگر وہ بھی مقدس مقام نہیں ہے تو پھر مقامات مقدّسہ کیاہوتے ہیں؟ کیسے ہوتے ہیں؟.... مفروضہ شرک سے بچنے کے لئے ہی غالباً ’’موحد‘‘سعودی حکومت نے جبل نورکاعلاقہ تعمیراتی مقاصد کے لئے فروخت کرنا شروع کردیاتھا۔ اسی دوران عوام الناس تک تو خبریں نہیں پہنچیں لیکن بعض مسلمان حکومتوں نے اندرہی اندرسعودی حکومت سے نیازمندانہ گذارش کرکے انہیں اس ’’موحدانہ عمل‘‘ سے روک لیاتھا۔ تاہم اس کے آس پاس جو تعمیرات ہوچکی تھیں وہ اب بھی موجود ہیں۔خداکا شکر ہے کہ غار حرا سلامت موجود ہے۔
۔۔۔۔۔غارحراسے واپسی پر رستے میں بچوں کاایک پارک دیکھا۔ یہ پارک اس مقام پر ہے جہاں حضرت عمر فاروقؓ نے عدل سے کام لیتے ہوئے اپنے بیٹے کو شرعی سزادی تھی۔ بیٹا مقررہ کوڑے پورے ہونے سے پہلے ہلاک ہوگیاتو حضرت عمرؓ نے فرمایاکہ اس کی لاش پرباقی کوڑوں کی گنتی مکمل کی جائے۔ یوں عدلِ عمر فاروقؓ کی ایک مثال قائم ہوئی۔ اس جگہ کو میدان العدل بھی کہتے ہیں۔ اب یہاں بچوں کاپارک بنادیاگیاہے۔ آخر میں حرم شریف کے قریب موجود مسجد الناقہ دیکھی۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں فتح مکہ کے موقعہ پر آنحضرت ﷺکی اونٹنی بیٹھی تھی اور حضور نے وہیں پڑاؤ کا حکم دے دیا تھا۔یہیں ابو سفیان نے دس ہزار صحابہ ء کرام کو حضورؐ کی امامت میں نماز پڑھتے دیکھاتھااور مبہوت رہ گیاتھاکہ جس یتیم اور بظاہر بے آسرا ہستی کو ہم نے مکہ سے ہجرت کرنے پر مجبورکردیاتھاآج اس کی شان اتنی بڑھ گئی ہے کہ اس کے جھکنے پر دس ہزار افراد ایک ساتھ جھُک جاتے ہیں اور اس کے اٹھنے پر ایک ساتھ اٹھ جاتے ہیں ۔۔۔۔۔۔اور پھر حضرت ابوسفیان نے اسلام قبول کرلیاتھا۔

***

Keine Kommentare:

Kommentar veröffentlichen